موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ رحمن |
|
اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی نعمتوں کو بیان فرمارہے ہیں اور نعمتوں میں سارے انسان شامل ہیں،اس لئے سب انسان ہی یہاں مراد ہیں ،بہرحال انسان کی تخلیق اور اس کے وجود کی نعمت کا ذکر فرمایاپھر اس وجود کے بعد اعضاء سے نوازا،اگر اللہ پاک ہم کو پیدا کرتے لیکن اس کے اندر نقص رکھ دیتے مثلا ہمیں آنکھیں نہ دیتے ، زبان نہ دیتے،یا ہم ہاتھ پیر سے معذور ہوتےتوہم کیا کرتے؟ہمیں اُن سے شکایت کا کوئی حق نہیں ہے،کوئی اُن پر مقدمہ نہیں کرسکتا،اس لئے اللہ پاک نے اس عظیم نعمت کی یاد دہانی فرمائی ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس پر مزید ایک اور نعمت سے نوازاورقرآن پاک نازل فرمایا، چونکہ اس علم کے ذریعے زندگی گزارنے اور دارین میں کامیابی اور رضاء الٰہی کے حصول کا طریقہ معلوم ہوتا ہے،اس لئے اس کے اظہار کے واسطے بیان کی صلاحیت عطا فرمائی۔قوتِ گویائی بھی عظیم نعمت ہے : اورفرمایا:’’عَلَّمَہُ الْبَیَانَ‘‘ ، ’’اسی نے اُس کو گویا ئی سکھلائی‘‘ قوت گویائی بھی بہت بڑی نعمت ہے،اللہ پاک نے بے شمار مخلوقات بنائی ہیں لیکن ما فی الضمیر کے اظہار کی جو صلاحیت انسان کو عطا کی گئی ہے وہ کسی اور کو نہیں دی گئی، آج ہم دین اور دنیا کے جتنے علوم سیکھتے اور سکھاتے ہیں وہ سب ا سی قوتِ گویائی کا نتیجہ ہیں۔بیان سے کیا مراد ہے؟ ’’عَلَّمَہُ الْبَیَانَ‘‘کی تفسیر میں مفسرین نے لکھا ہے کہ بیان دو قسم کا ہوتا ہے: (۱)’’بیان بالتحر یر‘‘یعنی تحریراور کتابت کی شکل میں بات سمجھانا،جس کا سورۂ علق میں تذکرہ ہے:’’عَلَّمَ بِالْقَلَمِ‘‘ ، ’’وہ ایسا ہے جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی‘‘۔