موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ رحمن |
|
تمہارے مقابلہ میں ان پر زیادہ ہوا،تم تو خاموش رہے لیکن انہوں نے اس کا بڑا اچھا جواب دیا۔پھراُس کے بعدآپنےفرمایاکہ جب میں فبأی آلاء ربكما تكذبان کہتا تو وہ کہتے:’’لَا بِشَيْءٍ مِنْ نِعَمِكَ رَبَّنَا نُكَذِّبُ فَلَكَ الْحَمْدُ‘‘۱؎’’اے پرور دگار!ہم آپ کی کسی نعمت کی تکذیب اور ناشکری نہیں کریں گے،آپ ہی کےلئے حمد ہے‘‘۔اس لئے علماء نے فرمایا ہے کہ جب کوئی’’فَبِاَیِّ آلَاءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ‘‘ سنے تو اُس وقت زبان سے یا کم از کم دل میں یہ الفاظ کہہ لے۔نعمتوں کی تکذیب کی صورتیں : علماء نے فرمایا ہے کہ نعمتوں کے جھٹلانے کا ایک مطلب یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمت ہونے کاہی اقرارنہ کیا جائے یعنی عدمِ اعترافِ نعمت،جیسے مخلوق کا ایک بڑا حصہ قرآن پاک کو نعمت ہی نہیں سمجھتا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ نعمت کا اعتراف توکیا جائے،لیکن اس میں غیر اللہ کو بھی شریک سمجھا جائے،یا بذاتِ خود اسی کو مقصود اور معبود سمجھ لیا جائے،جیسے سورج و چاند کے نعمت ہونے کا احساس ہے،یہ احساس مسلمان کو بھی ہے اور غیرمسلم کو بھی ہے،لیکن غیر مسلم اللہ تبارک وتعالیٰ کے ساتھ اس کو بھی مقصود اور معبود سمجھتے ہیں،ان نعمتوں کو نعمت ہی کی حد تک رکھنا چاہئے ان کو معبود نہیں بنانا چاہئے، یہ بھی تکذیب کی ایک صورت ہے۔ اور کبھی تکذیب صراحۃً ہوتی ہے،اور کبھی دلالتہً۔صراحۃًکا مطلب یہ ہے کہ کھلم کھلا کسی کو اللہ کے ساتھ شریک ٹہرایا جائے،یا دین کے کسی بدیہی اور ضروری امر کا انکار کیا جائے،دلالۃً کا مطلب یہ ہے کہ انعامات اور احسانات کی وجہ سے جو تعلق اللہ ------------------------------ ۱؎:سنن ترمذی:کتاب التفسیر:باب ومن سورۃ رحمن،۵؍۳۹۹۔