موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ رحمن |
|
حاملانِ عرش جو چار فرشتے ہیں اُن کا حال یہ ہے کہ ان کے کان سے مونڈھے تک کی مسافت سات سو سال کی ہے۔۱؎اتنی بڑی اتنی طاقتور مخلوق ہونے کے باوجود وہ اللہ تبارک وتعالیٰ سے لرزاں و ترساں ہیں۔ اوراللہ پاک سے دعا کرتے رہتے ہیں، مانگتے رہتے ہیں اور ڈرتے رہتے ہیں۔انسان توضرورتوں کا مجموعہ ہے : جب فرشتوں کی یہ حالت ہے تو پھر اُن کے سامنے زمین والوں کی کیا حیثیت ہوگی؟زمین والوں کی ضروریات تو زیادہ ہیں،یہ رزق بھی مانگتے ہیں، عافیت بھی مانگتے ہیں، تندرستی بھی مانگتے ہیں، عزت بھی مانگتے ہیں، غنیٰ بھی مانگتے ہیں، خواہشات بھی مانگتے ہیں،اولاد بھی مانگتے ہیں،ملازمتیں بھی مانگتے ہیں، پیسے بھی مانگتے ہیں،ہر چیز مانگتے ہیں۔آدمی تو حاجتوں کا مجموعہ ہے۔ اگر انسان کے بارے میں آپ غور کریں تو آپ کو ضرورتوں کے علاوہ اورکچھ نظر نہیں آئے گا۔ سب مانگتے ہیں۔اور اللہ تبارک وتعالیٰ سب کو دیتے ہیں۔ آج تک جس کو جو کچھ بھی ملا اورجو کچھ مل رہا ہے اور جو کچھ ملے گا وہ اللہ تعالیٰ ہی سے ملا ہے اور اللہ ہی سے ملتا رہے گا،کسی اور سے نہ ملا ہے اور نہ مل سکتا ہے،اس لئے اسی سے مانگنا چاہئے۔سوال بزبانِ قال یا حال : یہ مانگنا اور سوال کرنا دو قسم کا ہوتا ہے ایک سوالِ قالی اور ایک سوال حالی۔ سوال قالی کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنی زبان سے مانگےکہ اے اللہ!آپ مجھے یہ چیز دے دیجئے، اور سوالِ حالی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آدمی اپنی زبان سے تو نہ مانگے،البتہ اس کی حالت ایسی ہو جس سے اس کی محتاجگی اورفقیری ظاہر ہوتی ہو،گویا اس کی حالت مانگتی ہے کہ مجھے اس چیز کی ضرورت ہے۔ ------------------------------ ۱؎:سنن ابی داؤد:باب فی الجہمیۃ والمعتزلۃ،۴۷۲۷۔