موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ رحمن |
|
مخلوقات کی حقیقت : ہمارے والد صاحب جب تصوف کے مضامین بیان کرتے تھے تو کبھی کبھی ہم لوگوں سے بھی آسمان کی طرف اشارہ کرکے پوچھتے تھے کہ یہ کیا ہے؟ ہم اس وقت چھوٹے تھے۔ ہم کہتے تھے کہ یہ آسمان ہے۔ وہ کہتے کہ یہ تو اس کا نام ہے،میں نام نہیں پوچھ رہا ہوں، سورج کے بارے میں پوچھتے کہ یہ کیا ہے؟ ہم کہتے کہ یہ سورج ہے،تو وہ کہتے کہ سورج تو اس کا نام ہے،میں اس کا نام نہیں پوچھ رہا ہوں،اسی طرح بہت سی چیزوں کی طرف اشارہ کرکے پوچھتے تو ہم اس کا نام لیتے،حضرت کہتے کہ میں اس کا نام نہیں پوچھ رہا ہوں، بلکہ اس کی حقیقت پوچھ رہا ہوں،اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ یہ سب مخلوق ہیں، پھر فرماتے کہ مخلوق کا مطلب سمجھتے ہو ؟ پھر اس کو سمجھاتے کہ مخلوق اپنے وجود سے پہلے معلوم اور معدوم ہوتی ہے، یہ سب پہلےاللہ تعالیٰ کے علم میں تھے، اُس کےبعد اللہ پاک نے انہیں وجود بخشا،یہ معلوماتِ الٰہیہ موجود نہیں تھے لیکن وجود کو چاہتے تھے،وجود کے محتاج اور بھکاری تھے،اس لئےاللہ پاک نےسب کو وجود عطا فرمایا۔اورصرف وجود ہی نہیں بلکہ وجود کے ساتھ وجودی صفات کا بھی ہونا ضروری ہے،اس لئے وہ صفات بھی عطا کی گئیں، ہم اندھے تھے، ہم نے اپنی زبان سے تومانگا نہیں لیکن اس نے آنکھیں عطا کیں،کیونکہ ہمارا مانگنا زبانِ حال سے تھا،ہم زبان حال سے کانوں کو مانگ رہے تھے۔ ہم زبانِ حال سے زبان کو مانگ رہے تھے۔ ہم زبانِ حال سے اپنا سر مانگ رہے تھے، ہم زبانِ حال سے ہاتھ مانگ رہے تھے، ہم زبانِ حال سے پیر مانگ رہے تھے، ہم زبان حال سے اپنا دل مانگ رہے تھے، کھانا پینا مانگ رہے تھے، اس کو ہضم کرنے کے لئے معدہ مانگ رہے تھے، خون بنانے کے لیے جگر مانگ رہے تھے، اس کے فضلہ کو نکالنے کے لیے گردے مانگ رہے تھے، جو کچھ بھی ہمارے پاس موجود