موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ رحمن |
|
حق تعالیٰ سےغایتِ تعلق کا ثمرہ : اسی طرح اللہ پاک نےصحابہ کے عمل کو بھی اپنی جانب منسوب کیا،جب جہاد کے دوران صحابہ کرام نے لوگوں کو قتل کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم نے قتل نہیں کیا بلکہ ہم نے قتل کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو بندہ اللہ پاک کے ساتھ فنائیت کا تعلق قائم کرلیتا ہے اور اُن کی مرضی کو اپنی مرضی بنا لیتا ہے تو پھر اللہ پاک اُس کے ہر کام کو اپنی طرف منسوب کرتے ہیں۔ ’’وَلَا يَزَالُ عَبْدِيْ يَتَحَبَّبُ اِلَیَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰى أُحِبَّهٗ فَأَكُوْنَ قَلْبَهُ الَّذِیْ يَعْقِلُ بِهٖ، وَلِسَانَهُ الَّذِیْ يَنْطِقُ بِهٖ، وَبَصَرَهُ الَّذِیْ يُبْصِرُ بِهٖ، فَإِذَا دَعَانِیْ أَجَبْتُهٗ، وَإِذَا سَأَلَنِیْ أَعْطَيْتُهٗ، وَإِذَا اسْتَنْصَرَنِیْ نَصَرْتُهٗ وَأَحَبُّ عِبَادَةِ عَبْدِیْ إِلَیَّ النَّصِيْحَةُ‘‘۱؎ ’’میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرے قریب ہوتا رہتا ہے،یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں،‘‘یعنی فرائض کے بعد مزید تعلق کے لیے وہ نوافل کا مسلسل اہتمام کرتا ہے تو پھر میں اُس کو اپنا محبوب بنالیتا ہوں۔پھر میں اس کا دل ہوجاتا ہوں جس سے وہ سمجھتا ہےاور اس کی زبان بن جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے،اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، پھر جب وہ مجھ سے دعا کرتا ہے تو میں اس کو قبول کرتا ہوں اور جب وہ مجھ سےمانگتا ہے تو میں اس کو دیتا ہوں اور جب وہ مجھ سے مدد طلب کرتا ہےتو میں اس کی مدد کرتا ہوں،اور میرے بندے کی سب سے محبوب عبادت میرے نزدیک اس کی نصیحت و خیر خواہی ہے۔ ------------------------------ ۱؎ :معجم کبیر :۸؍۲۲۱۔