موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ رحمن |
|
یہاں سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے مضمون کا رُخ بدل دیا۔دو قسم کے مضمون یہاں سےشروع ہورہے ہیں۔ایک تو ان سزاؤں، سختیوں اور مصیبتوں کا ذکر ہے جو گنہگاروں اور جہنمیوں کو دی جائیں گی، دوسرے ان نعمتوں کا ذکر ہےجو اہل جنت کو دی جائیں گی۔حق تعالیٰ کے فارغ ہونے سےکیا مراد ہے؟ یہاں اللہ کی فراغت سے مخلوق کی طرح فراغت مراد نہیں ہے۔در اصل یہ بندوں کو ڈرانے کے لئے ایک تعبیر اور اسلوب ہے۔انسانوں میں فارغ ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ فی الحال ایک کام میں مشغول ہیں،وہ کام دوسرے کام کرنے میں حارج اور مانع ہے، جب تک اُس کو ختم نہیں کیا جائے گا دوسراکام شروع کرنا دشوار ہے،اللہ پاک کا اس طرح فارغ ہونا مراد نہیں ہے،اللہ تبارک وتعالیٰ کے لیے کوئی کام حارج نہیں، اُن کے لئے کوئی مشغولیت مانع نہیں، کیونکہ یہ ایک عیب ہے اور اللہ تعالیٰ عیب سے سبحان ہیں۔ یہاں فراغت کا لفظ ایک تشبیہ اور استعارہ کے طور پر لایا گیاہے،یعنی اس سے کسی بھی کام کی طرف مکمل توجہ بتانا مقصود ہوتا ہے،جیساکہ کہا جاتا ہے کہ ہم اس کام کے لئے فارغ ہیں۔یعنی اب ہماری خاص توجہ اس کام پر ہوگی۔اسی طرح اس آیت میں بھی فراغت سے یہی مراد ہے۔ چونکہ اس سے پہلی آیت میں ذکر کیا گیا کہ آسمان و زمین اور ان میں بسنے والی ساری مخلوقات اللہ پاک سے مانگتی رہتی ہے اور اللہ پاک انہیں دیتے رہتے ہیں اس اعتبار سے وہ ہر وقت ایک خاص حالت اور خاص شان میں ہوتےہیں،تو اب اس آیت میں یہ بتایا جارہا ہےکہ قیامت کےروز یہ معاملہ ختم ہوجائےگا، اللہ پاک اس وقت صرف ایک کام یعنی مخلوق کے حساب و کتاب،ثواب و عذاب کے لئے فارغ ہوجائیں گے۔۱؎ ------------------------------ ۱؎:روح المعانی:۱۴؍۱۱۰۔