موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ رحمن |
|
کےبھی ہیں۔۱؎اب اس کا مطلب یہ ہوگا کہ’’اے جنات اورانسان! تم اپنے پروردگارکی کون کونسی نشانیوں اورکون کونسی قدرت کوٹھکراؤ گے؟‘‘یہ معنیٰ بھی صحیح ہے،عام طورپرمفسرین نےاس کا ترجمہ نعمت ہی سے کیاہے،نیز علامہ آلوسی نے بعض آیات میں نعمت کے بجائےقدرت کی صراحت کی ہے،اس وجہ سےعلامہ شبیر احمد عثمانی نے لکھا کہ جس مقام پر جو معنی مناسب وموزوں ہوں وہ اختیار کئے جا سکتے ہیں ۔۲؎صفتِ ’’رب‘‘ کے ذکر کی وجہ : اس آیت میں اللہ پاک نے’’ربّ‘‘ کا ذکر فرمایاہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں در اصل احسان میں مبالغہ مقصود ہے، کہ وہ ذات جو تمہاری پالنہار ہے،منعم ہے،محسن ہے،اور جو تمہیں پال رہی ہےاُس کی کن کن چیزوں کو اور کن کن نعمتوں کو تم جھٹلاؤ گے؟جب تم جھٹلا نہیں سکتے تو اس کے فرمانبرداربن جاؤ۔خطاب میں تثنیہ کا صیغہ کیوں؟ ’’تکذبان‘‘،تثنیہ کا صیغہ ہے،اللہ پاک نے یہاں تثنیہ کا صیغہ کیوں استعمال فرمایا؟اس کی وجہ یہ ہےکہ خطاب انسان اور جنات دونوں سے ہے،اس لئے یہاں تثنیہ کا صیغہ استعمال کیا گیا۔جیساکہ آگے مستقلاً دونوں کا ذکرآرہا ہے،اور یہی جمہور علماء کا مسلک ہے۔۳؎فبأی آلاء ربكما تكذبان کاجواب : ایک مرتبہ حضورصحابہاجمعین کےدرمیان جلوہ افروز ہوئے اور سورۂ رحمن کی تلاوت فرمائی۔ تمام صحابہ غور سے سنتے رہے۔ جب آپ تلاوت سے فارغ ہوئےتو فرمایاکہ جب میں نے جنات پراس سورت کی تلاوت کی تھی تو اس کا اثر ------------------------------ ۱؎:تفسیرِ طبری:۲۲؍۲۳۔ ۲؎:تفسیرِ عثمانی:۵۹۵۔ ۳؎:تفسیرِ قرطبی:۱۷؍۱۳۸۔