موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ رحمن |
|
کی باتوں میں مشغول ہوکر اس سے مزہ لیتا ہے تو اللہ او ر رسول سے محبت ہے۔ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کی پہچان ہی یہی ہے کہ اس کے ذکر میں اس کی بڑائی میں اس کی عبادت میں مزہ آئے۔ ایک حدیث میں آپ نےارشاد فرمایا: ’’جُعِلَتْ قُرَّةُ عَيْنِيْ فِى الصَّلَاةِ ‘‘۱؎ ’’میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں کردی گئی ہے‘‘۔حضور اکرم کی تھکان دُور کرنے کا ذریعہ : جب آپ بالکل تھک جاتے تھے تو سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ آپ نماز شروع فرماتے اور اس میں مشغول ہوجاتے۔ صبح سے شام تک گشت کرتے ، لوگوں سے ملاقاتیں کرتے ،اور دعوت دے کر جب گھرواپس ہوتے تو تھکن سےپیر اپنی جگہ صحیح نہ پڑتے،ایک جگہ رکھتے تو دوسری جگہ پڑتا،اور کوئی آپ کا اکرام بھی نہیں ہوتاتھا، ہر قسم کی بدتمیزی آپ کے ساتھ کی جاتی، پورا جسم مبارک گرد و غبار میں اَٹ جاتا۔چہرہ ، داڑھی اورکپڑے گرد و غبار سے بھر جاتے۔ ان سب کے باوجود آپ گھر پہنچتے ہی نماز شروع فرماتے۔آپ ()کو نماز میں ایسا لطف آتا تھا کہ ساری تکان اس سے دُور ہوجاتی۔اسی وجہ سے روایتوں میں آتا ہے کہ آپ حضرت بلال سے ارشاد فرماتے:’’یَا بِلاَلُ أَرِحْنَا بِالصَّلاَةِ‘‘۲؎’’اےبلال! نماز کے ذریعہ ہمیں راحت پہنچاؤ۔‘‘ اگر اللہ تعالیٰ کی محبت ہمارے دلوں میں ہو تو پھر عبادتوں میں مزہ آنےلگتا ہے، اگر نماز میں سستی ہورہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں خلل ہورہا ہے،لہٰذا اب اُس کی تربیت ضروری ہوتی ہے۔ایسے ہی قرآن پاک کی تلاوت میں، ------------------------------ ۱؎:سنن نسائی:کتاب عشرۃ النساء:باب حب النساء،۳۹۵۷۔ ۲؎:مسندِ احمد:۲۳۷۸۹۔