موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ رحمن |
|
ہوتا ہے،اس اعتبار سے سورج ایک جگہ کے اعتبار سے نکل رہا ہے اورایک جگہ کے اعتبارسے ڈوب رہاہے۔اس لئے کہا کہ وہ دو مشرقوں اور دو مغربوں کا رب ہے۔ اس مقام پر تو اللہ پاک نے تثنیہ کا صیغہ ذکر فرمایا،لیکن سورۂ معارج میں تثنیہ کے بجائےجمع کا لفظ استعمال فرمایا ہے: فَلَا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ إِنَّا لَقَادِرُوْنَ۱؎ اسی طرح سورۂ صافات میں بھی اللہ پاک نے جمع کا صیغہ استعمال فرمایا ہے،کیونکہ ہر روز سورج کا طلوع الگ جگہ سے ہوتا ہے،اس اعتبار سے مشرق اور مغرب بہت سے ہوجائیں گے،اس لئے وہاں جمع کا صیغہ استعمال فرمایا۔ایک جہالت کا ازالہ : اللہ پاک چانداورسورج کےبھی رب ہیں،اسی نے ان کو پیدا کیا ہے،اوران کے نکلنےکے بعدجواثرات رونما ہوتے ہیں وہ بھی اسی کے پیدا کردہ ہوتےہیں،ایسا نہیں ہےکہ قدرتی طورپرایک دھماکا ہوا اوردھماکے میں ایک سورج بن گیا، قدرتی طورپر ایک دھماکہ ہوا اور اُس سے چاند بن گیا،اور پھر وہ خوداپنے اسٹائل(STYLE) سے پھرنے لگے۔جیسا کہ بعض جاہل کہتے ہیں۔اتنا محکم اور اتنا عالی نظام،اتنے انضباط کے ساتھ چلنے والا نظام کیسے خود بخود وجود میں آسکتا ہے؟لاکھوں اور کروڑوںستاروں کا پیدا ہونا اور ایک نظام کے ساتھ چلنا،اُن کا پھرنا، اُن کا اپنے اپنے مدار میں ٹھہرے رہنا اور اپنے اپنے وقت پر کام کرنا،اور اس کے اثرات کا ظاہر ہونا بغیر خالق اور رب کے کیسے ہوسکتا ہے؟ اللہ پاک فرمارہے ہیں کہ میں اس کا خالق ہوں اور میں اس کا رب ہوں۔ ------------------------------ ۱؎:المعارج:۴۰۔