موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ رحمن |
وہاں ایک پلاسٹک کا سانپ رکھا ہو ا ہے،جس پر ان کا تبصرہ چل رہا ہے، کوئی کہہ رہا ہے کہ اس کی لمبائی کتنی زیادہ ہے؟کوئی کہہ رہا ہے کہ اس کا رنگ کتنا خطرناک ہے؟ کوئی کہہ رہا ہے کہ وہ کتنا موٹا ہے؟اسی درمیان ایک اصلی سانپ اوپر سے ٹیبل پر گرتا ہے،تو کیا اب بھی تبصرہ جاری رہے گا؟نہیں!بلکہ اُس کو دیکھتے ہی بھگدڑ مچ جائے گی۔صحابہ کے لیے جہنم اس اصلی سانپ کی طرح تھی ،اور آج ہمارے لئے جہنم کا تذکرہ پلاسٹک کے سانپ کی طرح ہے،اس لیے کہ جب صحابہکے سامنے جہنم کا تذکرہ آتا تو چہرے زرد ہوجاتے، طبیعتوں پر مایوسی چھاجاتی تھی۔لیکن ہم پر اس کا کچھ اثر نہیں ہوتا،کیونکہ جہنم کی حقیقت ہمارے سامنے نہیں ہے۔اللہ پاک ہم سب کو اس کی حقیقت سمجھائے اور اس سے بچائے۔خوفِ الٰہی کے انعامات : وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتَانِ۴۶۔فَبِاَیِّ آلَاءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ۴۷ اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا رہتا ہےاسکے لئے (دو باغ ہیں)۔ سو (اے جن و انس ) تم اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤگے؟ گزشتہ آیات میں بندوں کے لئے ترھیبی مضمون تھا،ان آیات میں ترغیبی مضمون ہے،اللہ تبارک وتعالیٰ کی ایک عادت ہے کہ جب بندوں کو سزا اور پکڑ کا مضمون سنا کر ڈراتے ہیں اور اپنی صفاتِ جلال کا تعارف کرواتے ہیں تو ساتھ ہی ساتھ صفاتِ جمال کا بھی تعارف کروادیتے ہیں،اس کی وجہ یہ ہے کہ ترہیبی مضمون سے مایوسی اور کفر کا اندیشہ ہوتا ہے،اس لئے ترغیبی مضمون بھی ذکر کردیتے ہیں،تاکہ بندوں میں امید بھی پیدا ہوجائے۔اسی لیے مشہور مقولہ ہے: ’’اَلْاِیْمَانُ بَیْنَ الْخَوْفِ وَالرَّجَاءِ ‘‘ ایمان خوف اور امید کے درمیان ہے۔ نعمتوں کے سننے سےاُمید پیدا ہوتی ہے، حق تعالیٰ کی رحمت سامنے آتی ہے، آدمی میں ایک شوق، رغبت اور اُمنگ پیدا ہوتی ہے۔اس لئے کچھ اس مضمون کا ذکربھی مناسب ہوتا ہے۔