موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ رحمن |
|
کو لے کر یہاں آئے ہیں،اس کے بعد اسے ہوش میں لایا گیا۔ باپ نے پوچھا کہ بیٹا! کیا ہوا تھا؟ بیٹے نے کہا کہ اباجان! ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ باپ نے کہا کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہےکہ ایک نوجوان اور تندرست آدمی اچانک بے ہوش ہوجائے؟ یقینا ً کوئی تو بات ہے۔ اُس نوجوان نے اپنے باپ کو پورا قصہ سنادیا، اور کہا کہ اس موقع پر مجھے ایک آیت یاد آگئی اور اس آیت کا اثر میرے قلب پر اتنا ہو اکہ میں بے ہوش ہوگیا۔ باپ نے پوچھا کہ بیٹا! وہ کون سی آیت تھی؟ (باپ کا یہی پوچھنا غضب ہوگیا) بیٹے نے کہا کہ اباجان! وہ یہ آیت تھی: إِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّھُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّیْطَانِ تَذَکَّرُوْا فَإِذَا ھُمْ مُّبْصِرُوْنَ ۱؎ ’’یقیناً جو لوگ خدا ترس ہیں جب ان کو کوئی خطرہ شیطان کی طرف سے آجاتا ہے تو وہ چونک جاتے ہیں پھر یکا یک ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں ‘‘۔ اُس کو جو اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کااحساسہوا تووہ بے ہوش ہوگیا اور اس کا انتقال ہوگیا۔حضرت عمر نے اس واقعہ کو سنا تو بہت متأثر ہوئے اور بہت روئے اور کہاکہ تم نے مجھے بلایا کیوں نہیں؟اس زمانے میں تکلفات نہیں تھے۔ جب بھی کسی کی شادی یا انتقال ہوتا تھا تو فوراً ہی اُس کو نمٹادیا جاتا تھا، تمام لوگوں کو بتانے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی تھی۔اور پھر امیرالمؤمنین کو ایک ایک آدمی کے جنازے کے لیے اوردیگر چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے بلایا جائے تواس میں بھی کافی حرج ہوتاہے،اس لئے ان لوگوں نے کہا کہ آپ امیرالمؤمنین ہیں، آپ کے ساتھ خلافت کے اُمور لگے ہوئے ہیں، ہم نے مناسب نہیں سمجھا کہ آپ کو تکلیف دیں۔ حضرت عمر نے کہا کہ چلو اس کی قبر پر چلتے ہیں۔وہ قبر پر تشریف لے گئے اور اُس کے لیے دعا کی اور پھر اس کے بعد یہ آیتِ کریمہ تلاوت فرمائی: وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتَانِ ------------------------------ ۱؎:الاعراف :۲۰۱۔