ملفوظات حکیم الامت جلد 11 - یونیکوڈ |
|
ہم کو تو کچھ خبر نہیں لیکن جب ہم کو بند کر دیا ہے تو کچھ گرنے کی آواز کنوئیں میں آئی تھی ۔ بچوں کے اس کہنے پر وہ کنوئیں میں دیکھنے لگے تو بیوی صاحبہ پانی کے اوپر تشریف فرما ہیں ۔ ( نہ معلوم کیسے مرنے سے بچ گئی ) ان کو نکالا ۔ پولیس کو اطلاع ہوئی اس نے چالان کر دیا ۔ مجسٹریٹ کے یہاں مقدمہ گیا اقدام قتل کی دفعہ لگی عدالت میں پہچاننے کے لئے منہ کھولنے کو کہا گیا تو اس نے انکار کیا میرے چھوٹے بھائی پیشی میں تھے ۔ ان کو رحم آیا اور انہوں نے کہہ دیا کہ ہاں یہی ہے میں جانتا ہوں ۔ اب عدالت نے اظہار لینا شروع کیا اس نے کہا کہ میرے بھائی کے مرنے کی خبر آئی تھی اس وجہ سے میرے حواس جاتے رہے تھے اس مدہوشی میں گر گئی ۔ عدالت نے جرح کی کہ پھر تم کو بچے بند کرنے کا ہوش کیسے رہا ۔ لاجواب ہو گئیں اور جرم قائم ہو گیا مگر مجسٹریٹ نے خیر جب فیصلہ لکھنا چاہا تو روئداد لکھ کر بڑی دیر تک سکوت کے عالم میں رہا پھر لکھنا شروع کیا تو عجیب فیصلہ لکھا کہ آج میرے اجلاس میں ایک عجیب قسم کا مقدمہ درپیش ہے اور مجرم قاعدہ سے مستحق سزا بھی ہے مگر یہ سوچ رہا ہوں کہ کیا سزا دوں کیونکہ سزا تین قسم کی ہو سکتی ہے ۔ قید یا جرمانہ یا ضرب بید ۔ لیکن ہر سزا میں موانع موجود ہیں ۔ اولا سزائے قید تو یوں نہیں ہو سکتی کہ اس کا بچوں کا ساتھ ہے اگر بچے بھی قید میں ہمراہ گئے تو وہ بے گناہ ہیں ان کی قید کی کیا وجہ اور اگر ماں سے علیحدہ کیا گیا تو ان کو روحانی تکلیف ہو گی جو قید سے بھی زیادہ ہے ثانیا جرمانہ کی سزا یوں نہیں ہو سکتی ہے کہ ہندوستان میں عموما عورتوں کے پاس مال نہیں ہوتا تو وہ جرمانہ اس کے خاوند کو دینا پڑے گا جو کہ بے قصور ہے اس سے جرمانہ لینے کے کوئی معنی نہیں ثالثا ضرب بید کی سزا یوں نہیں ہو سکتی کہ وہ اس کی متحمل نہیں ہو سکتی اس لئے حیران ہوں کہ کیا سزا دوں لیکن غور کرنے سے یہ سمجھ میں آتا ہے ۔ غور کے قابل یہ بات ہے کہ سزا کی غایت کیا ہوتی ہے ظاہر ہے وہ غایت یہی ہے کہ آئندہ اس فعل سے باز رہے تو یہ غایت اگر بدون سزا ہی حاصل ہو جائے تو پھر سزا کی حاجت نہیں سو یہ یقینی بات ہے کہ اس نے جس وقت اپنے کو کنویں میں دیکھا ہو گا یہ غایت تو اس کو وہیں حاصل ہو گئی تھی اس لئے مقدمہ خارج ہو کر داخل دفتر ہو ۔