ملفوظات حکیم الامت جلد 11 - یونیکوڈ |
|
کوتاہی کا احساس رہے تو بعد و راندگی نہیں ، راندگی کی علامت تو غفلت ہے عرض ۔ خصوصیت کے ساتھ دینی امور میں ارادوں کے اس ٹوٹنے رہنے سے کبھی کبھی اپنی راندگی کا خیال آتا ہے ۔ ارشاد ۔ یہ خیال صحیح نہیں بعد اور راندگی کی تو علامت غفلت و بے پروائی ہے جیسا کہ اس قسم کے لوگوں میں مشاہدہ ہوتا رہتا ہے نہ کہ کوتاہیوں کا احساس اور صدمہ و قلق ۔ ارادے ٹوٹنے پر بھی ارادہ کرتا رہے اس میں نیت کا ثواب تو ملتا ہی ہے عرض ۔ ارادوں کی اس بے بسی سے بعض اوقات جی چاہتا ہے کہ بس ارادہ کیا ہی نہ کروں لیکن اس پر بھی قدرت نہیں ۔ ارشاد ۔ ارادہ و نیت کا اجر تو بہرحال حاصل ہوتا ہے اس کو مفت کیوں ضائع کیا جائے ۔ البتہ عمل کی کوتاہیوں پر استغفار کرتے رہنا چاہئے ۔ لیکن استغفار کے بعد پھر کام میں لگ جانا چاہیے ہر وقت کوتاہیوں کا مراقبہ مضر ہے ۔ مایوسی و پست ہمتی پیدا ہوتی ہے ۔ عام طور سے کہنے کی بات نہیں ۔ حضرت شیخ اکبر نے لکھا ہے کہ توبہ و استغفار کے بعد معاصی کا ذہول قبول توبہ کی علامت ہے ( یہ عوام کے سمجھنے کی بات نہیں ) خاص کر اس زمانہ میں رجاء کا غلبہ بھی مفید ہے میں تو لوگوں کو احیاء العلوم میں کتاب الخوف کا جو حصہ ہے اس کے مطالعہ سے منع کرتا ہوں ۔ ضمنا فرمایا ۔ کہ اس زمانہ کے قوی و حالات زیادہ محنت و مشقت کے بھی متحمل نہیں ۔ لوگ تربیت میں اس کی بہت کم رعایت کرتے ہیں تو بعضوں کو ذکر جہر کی بھی اجازت نہیں دیتا ۔ ایک ڈپٹی صاحب تھے جن کے ذکر جہر کو ان کے شیخ نے یہاں تک بڑھا دیا تھا کہ رات رات بھر کرتے رہتے تھے ۔ محلے والے سو نہیں سکتے تھے پناہ مانگنے لگتے تھے ۔ اس پر بھی شیخ کا حکم تھا کہ کسی کی پرواہ نہ کرو ۔ بیچارے نے مجھ کو لکھا میں نے چند دن کے لئے نہ صرف ذکر جہر بلکہ ذکر ہی ترک کرا دیا جس سے ان کو بے حد انشراح و نفع ہوا ۔ بالآخر انہوں نے مستقلا میری طرف رجوع کی خواہش کی میں نے کہا اس میں حرج نہیں ۔ اگر کسی کو اپنے شیخ سے نفع یا مناسبت نہ محسوس ہو تو دوسرے سے رجوع کر سکتا