ملفوظات حکیم الامت جلد 11 - یونیکوڈ |
|
التفات نہ کرو اور بے التفاتی سے بھی دفع کا قصد نہ کرو کہ یہ بھی التفات ہے بس یوں ہی بے فکر رہو اگر تمام عمر بھی اسی میں گزر جائے کچھ پرواہ نہ کرو خواہ اسی حالت میں موت آجائے ۔ بریلی میں ایک صاحب علم اسی مرض میں مبتلا ہو گئے ۔ ان سے بھائی کے تعلقات تھے انہوں نے بھائی سے مجھے آنے کے لئے لکھوایا مجھے چونکہ ضعفاء پر بہت رحم آتا ہے مریض بھی ضعفاء میں داخل ہے اس لئے میں بریلی گیا ۔ میرے پہنچتے ہی انہوں نے خلوت کرائی اور مجھ سے کہنا شروع کیا کہ یہ وساوس کفریہ آتے ہیں میں ہنسا اور تھوڑی دیر تقریر کی جس سے وہ شگفتہ ہو گئے ۔ بس بے التفاتی کا یہ اثر ہوا کو سب دفع ہو گئے ۔ فرط انبساط میں انہوں نے یہ کہا کہ جب تک آپ رہیں گے کھانا میں بھیجا کروں گا میں نے بھائی سے آ کر سفارش کی کہ اگر اس وقت منع کیا تو ان کی طبیعت پژمردہ ہو جائے گی قبول کرنا ہی مناسب ہے ۔ بھائی نے منظور کر لیا ۔ مگر ان سے کہہ دیا گیا کہ کھانے میں تکلف نہ ہو مگر وہ کھانا اس قدر بھیجتے تھے کہ گھر کے سب آدمی کھا لیتے تھے منع کیا تو کہا کہ میرا دل مردہ ہو جائے گا مجھے اس سے اچھا مصرف کونسا ملے گا پھر میں تو چلا آیا اور میرے آنے کے لئے ایک ہفتہ بعد ان کا انتقال ہو گیا ۔ بڑی بشاشت کی حالت میں انتقال ہوا بہت خوش تھے بعض لوگ کہتے ہیں کہ وسوسے نہ ہوتے تو اچھا تھا میں کہتا ہوں عسی ان تکرھوا شیئا وھو خیرلکم مثلا یہ سمجھ لے کہ اچھا ہوا یہ مرض ابھی ہو گیا مرتے وقت ہوتا تو بڑی پریشانی ہوتی اب اگر مرنے کے وقت بھی وساوس آئے تو یہی خیال ہو گا کہ اچھا یہ تو سسرا وہی ہے جو زندگی میں دق کرتا تھا اور محض نا چیز نکلا ۔ وساوس سے پریشان ہونے والے اس سے مغموم ہوتے ہیں کہ یہ کلام نفس کر رہا ہے میں نے اس کا جواب دیا ہے کہ نفس متکلم نہیں ہے بلکہ سامع ہے اور متکلم شیطان ہے اور تحدیث کی اسناد نفس کی طرف مجازی ہے ۔ جب یہ ہے تو مواخذہ متکلم پر ہے نہ کہ سامع پر اس کی ایسی مثال ہے جیسے ہم کسی بادشاہ کی ملاقات کو جا رہے ہوں اور راستہ میں کوئی حاسد جو حاضری دربار سے ہم پر حسد کرتا ہے اور روکنا چاہتا ہے ۔ بادشاہ کو گالی دینے لگے تاکہ ہم اس میں لگ کر جانے سے رک جائیں تو ہم کو چاہئے کہ اس کی طرف التفات نہ کریں ( سیدھے بادشاہ