ملفوظات حکیم الامت جلد 11 - یونیکوڈ |
|
رسول کے ذہن میں بھی نہ تھی اس کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بتلا دیا اس کا جواب اہل ظاہر نے جو دیا ہے اس کا حاصل صرف یہ ہے کہ غیر نبی کو بھی نبی پر فضل جزوی ہو سکتا ہے اور حقیقت میں اس کے یہ معنی ہوئے کہ ہم اور جواب نہیں دے سکتے یہ جواب ایسا ہے جیسا ڈوبتا گھاس کو پکڑے اگرچہ بعض وقت گھاس سے کہ جس کی جڑ کنارے پر ہو آدمی بچ سکتا ہے لیکن اصلی تدبیر تو اور ہی ہے جو اندیشہ سے خالی ہے ایسے ہی اس کا اصل جواب اور ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عمر کو بھی وہ علم حضور ہی کے واسطے سے حاصل ہوا اور وہ شق بھی حضور کے ذہن میں تھی مگر بعض دفعہ اقتضاء وقت کے لحاظ سے حضور کی نظر ایک طرف زیادہ ہوتی تھی اور دوسری طرف نہ ہوتی تھی اس طرف بعض وقت خادموں کے ذریعہ سے حاضر کر دی جاتی تھی اس کی ایسی مثال ہے جیسے ایک استاد جو صاحب تصنیف بھی ہو وہ اپنے کسی شاگرد کے روبرو کسی مقام کو حل کر رہا ہو اور شاگرد اس موقع پر متنبہ کر دے کہ حضرت آپ نے تو فلاں جگہ اس کو دوسری تقریر سے حل کیا ہے اور فورا اس کی نظر اس طرف چلی جائے تو اس کو یوں نہ کہا جائے گا کہ شاگرد استاد سے بڑھ گیا ۔ بلکہ یوں کہا جائے گا کہ یہ استاد ہی کا ظل ہے جو اس کو یاد آ گیا اس نے متنبہ کیا ایسے ہی حضرت عمر کے اندر مشکوۃ نبوت ہی کے انوار و برکات تھے کہ وہ شق حاضر ہو گئی جس کی توافق بالوحی ہو گیا تو حقیقت میں وہ بھی حضور ہی کی رائے تھی جیسے ایک آتشی آئینہ ہے اگر بلا سورج کے مقابل کئے کپڑے کی طرف کرو تو نہیں جلا سکتا اور سورج کے مقابل کر کے کپڑے کی طرف کرو تو کپڑا فورا جلنے لگتا ہے کیونکہ آفتاب کی حرارت ایک جگہ اس میں مجتمع ہو گئی ہے ( جامع ) اور خود آفتاب سے بوجہ بعد نہیں جل سکتا کیونکہ آتشی شیشہ میں استعداد ۔ جذب حرارت کی ہے اس لئے اس میں اثر کرتی ہے اور وہ دوسروں پر اثر کرتا ہے ایسے ہی ہم بلا واسطہ رسول حق تبارک و تعالی تک پہنچ ہی نہیں سکتے تھے کیونکہ ہم بلا واسطہ فیوض کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے ۔ پھر جتنا رسول سے بعد ہوا ہماری قوت روحانی اور کمزور ہو گئی ۔ اس واسطے اب رسول تک بھی بلا وسائط نہیں پہنچ سکتے اور نہ فیوض و برکات حاصل کر سکتے ہیں اس لئے اب وسائط در وسائط کی ضرورت پڑی ۔ یہ یاد رکھنے کی بات ہے فافہم ۔ پس حقیقت یہ ہے ۔