ملفوظات حکیم الامت جلد 11 - یونیکوڈ |
|
کسی حرام و حلال کی تمیز نہیں بھلا جب خدا اور رسول کی رضامندی ہی حاصل نہ ہوئی تو مدرسہ کا وجود اور عدم سب برابر ہے بلکہ بعض اعتبارات سے عدم ہی بہتر ہے ( حسب ارشاد مرشدی مدظلہم العالی دنیا کے لباس میں دنیا حاصل کرنا اتنا مضر نہیں ہے جتنا دین کے پردہ میں دنیا حاصل کرنا مضر ہے ) آج کل مدارس کی حالت سوائے معدودے چند کے بس اس شعر کے مطابق ہے از بروں چوں گور کافر پر حلل و اندروں قہر خدائے عزوجل اکثر یہ ہوتا ہے کہ فلاں کام سے مدرسہ کے چندہ میں کمی ہو جائے گی عوام بد ظن ہو جائیں گے فلاں رئیس صاحب چندہ بند کر دیں گے چاہے خدا اور رسول کے احکام کی کتنی ہی نافرمانی ہو جائے مگر عوام کے خلاف نہ ہو ترسم نرسی بہ کعبہ اے اعرابی کیں راہ کہ تو میروی بترکستان ست مہتممین اور منتظمین کی ظاہری حالت سے یہی پتہ چلتا ہے کہ بس مدرسہ سے عزت و جاہ مقصود ہے کیونکہ مدرسہ نہ رہا تو اہتمام اور حکومت جاتی رہے گی ۔ جب مدرسہ کا اجراء اشاعت دین و رضائے خدا و رسول کے لئے ہے تو اس سے آگے قدم نہ بڑھانا چاہیئے حق غالب ہے کیونکہ اس کی شان ہے الحق یعلو او لا یعلی دل میں یہ پختہ نیت کر لو کہ جب تک یہ کام حدود شرعیہ کے تحت میں رہے ( جس سے رضائے خداوندی حاصل ہوتی ہے اور مقصود بھی یہی ہے ) تو کریں گے اور جس دن ایسا نہ رہا اس دن چھوڑ دیں گے ( کیونکہ اب مقصود فوت ہو گیا ) قاعدہ ہے اذا فات الشروط فات المشروط حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک قلمی گرامی نامہ مکاتیب رشیدیہ کے آخر میں تحریر ہے جس کو مولانا خلیل احمد صاحب اور مولانا دیوبندی رحمۃ اللہ علیہما کے نام جبکہ وہ مخالفین کی وجہ سے کچھ پریشان تھے تحریر فرمایا تھا اس میں ایک جملہ یہ بھی تھا کہ میرے عزیزو تم کیوں پریشان ہوتے ہو مدرسہ مقصود نہیں رضا مندی حق جل و علا مقصود ہے اور اس کے بہت