موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ رحمن |
|
ہوتی ہے ۔مفسرین نے فرمایا کہ ابتدائی تین نعمتوں کے بیان پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے ’’واو‘‘ کو استعمال نہیں فرمایا۔کیونکہ وہ نعمتیں بڑی ہیں،ان کے ذریعہ مخاطب کو لاجواب اور ساکت کرنا مقصود ہے،پھر اس کے بعد دوسری نعمتوں کو بیان فرمایاکہ اور بھی نعمتیں ہم نے تمہیں دی ہیں،وہ یہ ہیں۔ چنانچہ فرمایاکہ رحمٰن نے انسان کو قرآن کی تعلیم دی، انسان کو پیداکیا، اُس کو بیان سکھلایا۔ ان نعمتوں کا تقاضا تو یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ کے احسانات میں دَب جائے اور لاجواب ہوکر اس کی باتوں کو مان لے اور اس کی شکر گزاری کرے۔پھر فرمایا کہ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ سورج بھی تمہارے لئے بنایا ہے،اورچاندبھی تمہارے لئے ہے۔اوربیلیں بھی تمہارے لئے ہیں،اور آسمان کے بلند کرنے کانظام بھی تمہارے لئے ہے،اور زمین کے بچھانے کا نظام بھی تمہارے لئے ہے۔اور شجر بھی تمہارے لئے ہے۔اورپھل بھی تمہارے لئے ہے،اور غلہ بھی تمہارے لئے ہے۔تاکہ بندہ کو حق تعالیٰ کے سامنے جھکنے اور اس کی اطاعت کرنے اور اس کی نعمتوں کا شکرادا کرنےمیں کسی قسم کی جھجھک نہ ہو۔ پہلی تین صفات کی نسبت حق تعالیٰ نے اپنی جانب کیوں کی؟ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ پہلی تین صفات میں اللہ تعالیٰ نے فعل کی نسبت اپنی جانب کی ہے،چنانچہ فرمایاکہ رحمٰن نے قرآن کی تعلیم دی،انسان کوپیداکیا،بیان سکھلایا، لیکن اس کے بعد حق تعالیٰ جن صفات کا ذکر کررہے ہیں ہے اُن میں کسی نعمت کواپنی جانب منسوب نہیں کیا۔بلکہ فرمایا کہ سورج اور چاند حساب میں ہیں، یہاں یہ نہیں فرمایا کہ سورج وچاندکومیں نےچلایا،حالانکہ ان کواللہ تعالیٰ ہی نے چلایا ہے، ایسے ہی یہ نہیں فرمایا کہ ’’نجم و شجر کو میں نے سجدے میں رکھا‘‘،بلکہ فرمایا کہ نجم و شجر تو سجدے میں پڑے ہوئے ہیں۔ یہ اسلوب اللہ پاک نے اس لئے اختیار فرمایا