موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ رحمن |
|
کیونکہ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’صُوْمُوْا لِرُؤْيَتِهٖ،وَاَفْطِرُوْا لِرُؤْيَتِهٖ،فَاِنْ غُبِّىَ عَلَيْكُمْ فَاَكْمِلُوْا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثَلاَثِيْنَ‘‘۱؎ چاند دیکھ کر روزہ رکھو،اور چاند دیکھ کر افطار کرو،لیکن اگر بدلی چھاجائے تو تیس دن مکمل کرو۔ بعض روایات میں ہےکہ آپ نے فرمایا کہ ہم امی قوم ہیں،حساب وکتاب نہیں جانتے،مہینہ کبھی انتیس کا ہوتا ہےاور کبھی تیس کا ۔۲؎ لہذا اگر انتیس کو چاند نظر آجائے جیسا کہ دوسری روایت میں ہے تو روزہ رکھنا ہے، اور اگر نظر نہ آئے تو تیس دن مکمل کرناہے۔اس حدیث میں آپ نے وضاحت فرمائی کہ مہینےکا مدار حساب وکتاب پر نہیں ہے۔ بلکہ چاند دیکھنے پر ہے۔ بعض مرتبہ حساب وکتاب کے بعد عید کا اعلان کردیاجاتا ہے اور رمضان کا آخری دن شوال میں شامل کیا جاتا ہے،یہ انتہائی بے وقوفی اور دین و شریعت سے دوری کا نتیجہ ہے۔ پورےرمضان میں جتنے لوگوں کی مغفرت ہوتی ہے،رمضان کےآخری دن اُتنے ہی لوگوں کی مغفرت کی جاتی ہے،اور رمضان کے ہر دن میں دس لاکھ سے زائدآدمیوں کی مغفرت ہوتی ہے۔ لیکن اگر حساب کی روشنی میں اس دن عید ہوئی اورحقیقۃً وہ رمضان ہی کا دن تھا تو اس مبارک دن میں ہم نے اس فریضہ کو چھوڑ دیا، مغفرت کے بجائے الٹا گناہ کے ہم مرتکب ہوئے۔ اسی طرح حج جیسی عظیم عبادت کا مدار بھی چاند پر موقوف ہے،اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’یَسْأَلُوْنَکَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ ھِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ‘‘۳؎ لوگ آپ سے نئےمہینوں کے چاند کےبارے میں پوچھتے ہیں۔آپ انہیں بتا دیجئے کہ یہ(چاند) لوگوں کے (مختلف معاملات کے) او رحج کے اوقات متعین کرنے کے لئے ہیں۔ ------------------------------ ۱؎:صحیح بخاری:باب قول النبی اذا رأیتم الھلال،۱۹۰۹۔ ۲؎: صحیح بخار ی:باب قول النبی لا نکتب ولا نحسب،۱۹۱۳۔ ۳؎:البقرۃ:۱۸۹۔