موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ رحمن |
|
پوری کرنا،اس لئے رحیم کا لفظ مخلوق کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے،۱؎اسی وجہ سےحضور پاککے اسمائے گرامی میں ’’رحیم‘‘بھی ہے: لَقَدْ جَاء کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ أَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِّالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُوْفٌ رَّحِیْمٌ ۲؎ مفسرین نے لکھا ہے کہ اللہ پاک کو رحمٰن دنیا کے اعتبار سے اور رحیم آخرت کے اعتبار سے کہا جاتا ہے۔۳؎ کیونکہ دنیا میں اللہ پاک کی رحمت سب کو عام ہے،کافر، مومن اورمنافق سب اس میں شامل ہیں،اور آخرت میں اللہ پاک کی خاص رحمتیں ہوں گی، جس میں صرف مسلمان شامل ہوں گے،وہاں رحمت اور نعمت میں مسلمانوں کے علاوہ کوئی شامل نہیں ہوگا،اس لئے اللہ پاک کو آخرت کے اعتبار سے رحیم کہا جا تا ہے۔۴؎ اورکبھی رحمٰن کہتے ہیں تو رحیم کے معنی مراد ہوتےہیں اور رحیم کہتے ہیں تو رحمٰن کےمعنی مراد ہوتے ہیں،اوریہ دونوں لفظ’’رَحْمٌ‘‘سے بنے ہوئے ہیں،عربی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ جیسے ہی لفظ بدلتا ہے، اس میں کمی بیشی ہوتی ہے تو اُس کے معنی بھی بدل جاتے ہیں۔ رحم میں الف اور نون کا اضافہ ہوا تو رحمٰن مبالغہ کا صیغہ بن گیا، اور ی کا اضافہ ہواتو صفت کا صیغہ رحیم بن گیا۔ جب کسی ذات کی کوئی صفت بتاناہوتو اُس کے لیے یہ وزن استعمال کرتے ہیں’’کَرِیْمٌ، رَحِیْمٌ،عَزِیْزٌ‘‘وغیرہ۔ جب کسی میں کسی وصف کی زیادتی اور شدت کوبتلانا ہوتا ہے تو اُس کے لیے مبالغہ کا صیغہ استعمال کرتے ہیں ’’عَلَّامٌ،رَحْمٰنٌ،فَعَّالٌ‘‘ وغیرہ۔یہ الفاظ بھی اپنے ایک مستقل مفہوم کو ظاہر کرتے ہیں اور وہ الفاظ بھی اپنے ایک مستقل مفہوم کو ظاہر کرتے ہیں۔ ------------------------------ ۱؎:تفسیر رازی:۱۵؍۴۹۔ ۲؎:التوبۃ:۱۲۸۔ ۳؎:تفسیر رازی : ۱۵؍ ۴۹۔ ۴؎:روح المعانی:۱؍۲۶۔ نوٹ: رحمن اور رحیم میں فرق اور اس کی تفصیل جاننے لئے حضرت کے سورۂ فاتحہ کے افادات کی طرف بھی رجوع کرسکتے ہیں۔