ملفوظات حکیم الامت جلد 11 - یونیکوڈ |
|
منقولات کی مثال اس طرح دیا کرتے تھے کہ بھائی منقولات کی تو مثال ایسی ہے جیسے کبوتر کہ وہ ذرا سی مشقت سے شکار ہو جاتا ہے ایک چھرا ہی کافی ہے اور پھر مزہ دار سالن کا سالن اور معقولات کی مثال ایسی ہے جیسے سور کا شکار کہ اس کے مارنے میں مشقت تو بہت ہے اور حاصل کچھ بھی نہیں ایک معقولی کی حکایت ہے کہ وہ پڑھ کر آئے باپ نے دو انڈے پکوا کر سامنے رکھے اور ان کے ایک بھائی کو ہمراہ بٹھا دیا کہ یہ دونوں بھائی کھا لیں گے آپ کو معقول کا جوش اٹھا تو کہا کہ ابا جان ہم دو انڈوں کو سو ثابت کر دیں ۔ باپ نے ثابت کرنے کی اجازت دی کہنے لگے کہ ایک یہ ایک یہ دو ہوئے اور ان کا مجموعی تین ہوئے اس طرح تین یہ اور ایک تین کا مجموعہ چار ہوئے ۔ بس بڑی بک بک کے بعد سو ثابت ہو گئے ۔ باپ ہوشیار تھا اس نے ایک انڈا تو خود اٹھا کر کھا لیا اور ایک چھوٹے لڑکے کو کھلا دیا اور کہا 98 آپ کھا لیں بس یہ نتیجہ ہوا کہ اس قدر محنت بھی کی اور حاصل کچھ نہ ہوا اور نقصان یہ ہوا کہ سامنے کے بھی اٹھ گئے ۔ نقصان پر یاد آیا کہ ایک معقول تیلی کے یہاں تیل لینے گئے ۔ اس کے بیل کے گلے میں گھنٹی بندھی ہوئی تھی انہوں نے پوچھا یہ کیوں باندھی ہے کہا ہم اکثر کام میں رہتے ہیں اس گھنٹی سے اس کے چلنے کا پتہ چل جاتا ہے فرمایا یہ کوئی بات نہیں اگر کھڑا کھڑا ہی سر ہلاتا رہے تیلی نے کہا مولوی صاحب یہاں سے جائیے تیل بھی اور کہیں سے لے لیجئے کہیں میرے بیل کو معقولی آ جائے پھر کام نہ کرے نتیجہ یہ ہوا کہ بیچارے کو تیل بھی نہ ملا ( بعد میں ہمارے حضرت نے انڈے والے معقولی کی نسبت فرمایا کہ اس کو جواب دینا نہیں آیا اسے یہ کہنا چاہئے تھا کہ وہ اٹھانویں بھی تو ان دو ہی کے تابع تھے وہ 98 بھی تم نے کھا لئے مجھ کو کچھ نہیں بچا ۔ اب محققین نے مجاہدات میں کمی کر دی ہے ایک طالب علم حضرت والا کے پاس آ کر بیٹھا تو اس سے استفسار فرمایا کہ آج پڑھتے کیوں نہیں اس نے کہا کہ مجھے جریان کا مرض ہے اور حکیم صاحب نے منع کر دیا ہے فرمایا کہ آج کل قوی بہت ضعیف ہو گئے ہیں دیکھئے تو اس کی عمر ہی کیا ہے پہلے لوگوں کے قوی بہت اچھے ہوتے تھے ہماری بڑی پیرانی صاحبہ مدظلہا ( یعنی حضرت حاجی صاحب