ملفوظات حکیم الامت جلد 11 - یونیکوڈ |
سامنے حوض پر کان پکڑ کر چلو کیونکہ میں نے تم کو خلوت میں عزت سے سمجھایا تھا اس کو تم غنیمت نہیں سمجھے واقعی دنی الطبع بلا سختی کے نہیں مانتا ( وہ صاحب حوض پر کان پکڑ کر چلے ) مجلس کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ اس سے طلباء پر مدرس کی بے رعبی ضرور ہو گی ۔ مگر میں کیا کروں میں نے ہر چند چاہا کہ یہ میرا کہنا مان جائیں مجبورا یہ عمل اختیار کیا ہے ( پھر ان صاحب کو حوض پر سے بلایا اور فرمایا کہ قرآن شریف لاؤ وہ صاحب قرآن شریف لے آئے تو فرمایا کہ اس پر ہاتھ رکھ کر کہو کہ خدا کی قسم اب سے کسی بچہ کو نہ ماروں گا اور اگر اس پر قادر نہ ہو تو کام چھوڑ دو ہم اپنا انتظام خود کر لیں گے میں نے تمہارے واقعات گھر پر بچوں کو بلا کر مارنے کے اور ایسے مارنے کے کہ وہ بیہوش ہو گئے سنے ہیں تم کو اس قدر مارنے کا کیا حق ہے بلا کسی کے اذن کے مارنے کا حق یا والدین کو ہے یا حاکم کو یہ تیسرے میاں جی بیچ میں کہاں سے آ گئے تمہارے ذمے پڑھانا ہے علم آ جانا تھوڑا ہی ہے فقہاء نے اس کو خوب سمجھا ہے چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی عقد اجارہ میں یہ کہے کہ اتنا حساب یا پڑھنا مجھے آ جائے تو یہ دوں گا تو یہ اجارہ باطل ہے اور اگر یہ کہا کہ سکھاؤ پڑھاؤ خواہ آئے خواہ نہ آئے تو یہ جائز ہے کیونکہ استاد کے اختیار میں سکھلانا پڑھانا ہے آ جانا نہیں ہے کم بختوں کو راحت کی بات بتلاتا ہوں مگر وہ تمام کام اپنے ذمے سمجھتے ہیں کہ پڑھانا بھی ہمارے ذمے ہے گھر سے بلوانا بھی ہمارے ذمے ہے اور جنتی بنانا بھی ہمارے ذمے ہے بھائی یہاں تو تم کو کسی کی باز پرس کا ڈر نہیں کوئی اہل شوری نہیں کچھ نہیں صرف ایک ہی واسطہ ہے اگر کوئی نہ پڑھے تو تم اس کی حالت لکھ کر مہتمم کو دیدو ( مراد مولانا شبیر علی صاحب برادر زادہ حضرت مولانا مدظلہم العالی ہیں ) وہ اگر مصلحت سمجھیں گے ان کے ماں باپ سے اطلاع کر کے خارج کر دیں گے ۔ تم باپ کا کام اپنے ذمے کیوں لیتے ہو ان کو اگر پڑھانا ہو گا اس کا مزاج آپ درست کر دیں گے دیکھو انگریزی مدارس میں مارنے کا قاعدہ بالکل نہیں ہے تو دنیا دار تو حقیقت کو سمجھیں اور دیندار طبقہ نہ سمجھے اور اب تو جبریہ تعلیم کا قاعدہ نکل آیا ہے دینی مکاتیب سے بعد ہو رہا ہے اس سختی سے تو بچے اور اچاٹ ہوں گے اور دینی تعلیم کو چھوڑ دیں گے ایسے وقت تو نہایت شفقت سے