تقریظ: امام اہل سنت، ماحی بدعت، حامی شریعت، عالم ربانی، مقبول صمدانی، بحر الطمطام جرالقمقام حجۃ الاسلام سید المفسرین سید العلماء والموعظین حضرت قبلہ وکعبہ مولانا مولوی حاجی صوفی سید ابو محمد محمد دیدار علی شاہ صاحب لازال شموس فیضانہ ابدا۔
’’ایام جلسہ مرکزی حزب الاحناف ہند لاہور میں ایک کھلی چٹھی بنام علماء کرام میری نظر سے گذری تھی۔ جو اکرام الحق نامی کسی شخص نے شائع کی تھی۔اس میں وہی پرانے اعتراضات نصاریٰ کے تھے جو اس سے قبل ۱۹۱۴ء میں قاسم علی احمدی نے بارسوم لکھ کر دہلی سے شائع کئے تھے۔ پھر حقائق قرآن میں بھی اعتراضات چھپے۔ اس کے بعد اس کھلی چٹھی میں شائع کئے گئے اور جب شیر میدان اسلام نے جوابات دئیے تو میاں اکرام نے ایک اور پرچہ چھاپا جس میں مولوی گرعلماء پر خاموشی کا الزام لگایا۔ حالانکہ یہ محض غلط الزام تھا۔ مولوی گر علماء خاموش نہ رہے بلکہ انہوں نے تقریروں میں بھی جلسہ کے اندر بقدر وسعت وقت مختصر جوابات دئیے۔ بلکہ خود اکرام الحق مولوی عبدالحفیظ صاحب کے جواب کا شکر گزار ہوا۔ بہرکیف زیادہ تر اس طرف التفات کرنے کو اس لئے غیر ضروری سمجھا گیا کہ اس کا جواب پہلے بھی شائع ہوچکا تھا اور اب بھی بہت سے جوابات لکھے گئے۔ پھر میرے لخت جگر بلند اختر عالم ربانی مقبول یادگار صمد مولانا حافظ حکیم سید محمد احمد اطال اﷲ عمرہ باشاعتہ الدین والجماعۃ سید المرسلین بوجہ من الصادقین المصدقین ومطیع الاتحاد بین المسلمین نے نہایت پسندیدہ طرز پر لفظ بلفظ ہر اعتراض اور شبہ کے مکمل جواب لکھے اور ایسے لکھے کہ ایک منصف مزاج بہکا ہوا مسلمان تو درکنار اگر ایک نصرانی عیسائی بھی بنظر انصاف دیکھے تو اس کی تشفی وتسلی کو کافی ہے اور عزیز مذکور نے اس جواب میں یہ خصوصیت رکھی ہے کہ ہر شبہ کا جواب حسب خواہش معترض فقط آیات قرآنی سے دیا ہے اور حدیث واجماع اور قیاس شرعی سے مطلقا کام نہیں لیاگیا۔ مگر میں یہ کہتا ہوں کہ معترض صاحب کی یہ خواہش ایک حد تک کسی طرح حق بجانب نہ تھی۔ اس لئے کہ وہ خود اپنی کھلی چٹھی کی سطر ۱۳ صفحہ اوّل پر لکھ چکے ہیں کہ اس رسالہ کے مصنف نے تیرہ وجوہات بیان کی ہیں جو تمام کی تمام قرآن مجید کی آیات اور مسلمانوں کی مسلمات پر مبنی ہیں۔ تو جب قرآن کریم اور دیگر مسلمات اسلام پر مبنی اصول کو وہ خود تسلیم کرتا ہے اور اعتراض نمبر ۱۳ کو تو محض مسلمات اسلام کی بنا پر ہی نقل کیا ہے۔ پھر میں نہیں سمجھ سکا کہ خود تو فضیلت عیسیٰ علیہ السلام ثابت کرنے کو سب طرف جانے کا مجاز بنتا ہے اور دوسرے کو قرآن کریم سے جواب دینے پر مجبور کر کے صفحہ ۲ کی سطر ۲۳پر احادیث رواۃ صحیحہ کے متعلق لکھتا ہے۔ زبانی قصے کہانیاں چھوڑ کر کوئی