ہے۔ اس ہدایت پر محمول کیا جائے گا۔ جو آچکی۔ ’’قد تبین الرشد من الغی‘‘ یا کسی نئی ہدایت پر چسپاں کیا جائے گا؟ جواب تک منظر عام پر نہیں آئی۔
کچھ اور ضروری بحثیںبھی ہیں جو اسی سلسلے سے متعلق ہیں۔ انشاء اﷲ وہ خاص ترتیب کے ساتھ آگے آئیںگی۔ سردست ہمیں کچھ ایسے اعتراضوں کا سامنا ہے جن کو ذوق ادب کی محرومیوں اور مطالعہ کی کمی نے پیدا کیا ہے۔ پہلے ان کے جواب پر غور فرمالیجئے۔ پھر آگے بڑھیںگے۔
کیا خاتم کے معنی افضل کے ہیں
کہا جاتا ہے کہ خاتم وآخر کے معنی افضل وبہتر کے ہیں۔ چنانچہ ہم برابر اس طرح کی ترکیبیں سنتے اور استعمال کرتے ہیں کہ فلاں خاتم الشعراء ہے۔ فلاں خاتم المحدثین ہے۔ علامہ سیوطیؒ نے ایک جگہ امام ابن تیمیہؒ کے حق میں فرمایا ہے کہ یہ آخر المجتہدین ہیں۔ ان سب استعمالات میں کہیں یہ مقصود نہیں ہوتا کہ اب شعروسخن کی صلاحیتیں ختم ہوگئی ہیں۔ یا اب کوئی محدث پیدا نہیں ہواگا۔ یا یہ کہ ابن تیمیہؒ پر اجتہاد واستنباط کے تقاضے اس طرح مکمل ہوگئے ہیں کہ ان کے بعد کوئی اجتہاد کا دعویٰ نہیں کرسکے گا۔
جواب کی دوصورتیں
بات زیادہ الجھاؤ کی نہیں۔ جواب کی ایک صورت تو یہ ہے کہ یہ باعتبار زاعم کے ہے۔ یعنی جب ایک شخص کسی کو خاتم الشعراء کہتا ہے تو وہ واقعی یہ سمجھتا ہے کہ اس کے بعد شعر کہنا بے کار ہے۔ ورنہ مدحت میں غلوجو مقصود ہے اور مبالغہ کی جان ہے۔ بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے۔ اسی طرح خاتم المحدثین اور آخر المجتہدین کے الفاظ استعمال کرنے والا یہی سمجھتا ہے کہ محدثیت واجتہاد کی یہ آخری کڑیاں ہیں۔ ورنہ یہ ترکیب پھسپھسی اور بے مزہ ہوگی۔ کیونکہ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ ان الفاظ کے استعمال سے ایک گونہ فضیلت ثابت کرنا ہی مقصود ہے تو ان میں زور کیا خاک باقی رہے گا۔ اب یہ کہنے والا یا زاعم نہ تو پیغمبر ہے اور نہ یہ کوئی پیشین گوئی ہی ہے۔ بلکہ مدح کا ایک انداز ہے جو اختیار کیاگیا ہے۔ اس لئے اگر اس کے بعد بھی کوئی شخض شعروسخن کے ذوق سے بہرہ مند ہوجاتا ہے یا محدثیت واجتہاد کی مسند پر بیٹھ جاتا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔
دوسرا انداز یہ ہے کہ مجازوحقیقت کے استعمال میں فرق ہے۔ جب کوئی لفظ اپنے موضوع لہ معنوں میں استعمال ہوگا تو وہ حقیقی ہوگا اور جب کسی مناسبت سے وہ ان معنوں میں استعمال نہ ہوسکے گا تو یہ مجاز ہوگا۔ مثلاً شیر کا ایک استعمال یہ ہے کہ وہ ایک درندے کا نام ہے اور