گمراہ ہوئے جو تجھ سے
اے صاحب یگانہ
ولا الضآلین
ہے عرض تجھ سے اتنی
اے قادر وتوانا
مقبول یہ دعاء ہو اولا مکان والے
اٰمین
’’ربنا افتح بیننا وبین قومنا بالحق وانت خیر الفاتحین۰ اعوذ باﷲ من الشیطن الرجیم۰ بسم اﷲ الرحمن الرحیم‘‘
قسط اوّل
ادّعائے نبوت کوئی نئی بات نہیں۔ حضور سرورکائنات فخر موجودات احمد مصطفیٰ محمد مجتبیٰﷺ کی شریعت کے ماتحت دعویٰ نبوت کرنے والوں کی ابتداء خود خواجہ دوجہاںﷺ کے عہد ہی میں شروع ہوئی۔ جو اب تک جاری وساری ہے اور یہ کہنا مشکل ہے کہ کب ختم ہوگی اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔ علامہ اقبال کا ایک شعر کہ ؎
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرار بوللہبی
اس کی صداقت ناقابل انکار ہے۔ مسیلمہ تو مرد تھا۔ حضور ختم رسل وبابی انت وامی یا رسول اﷲ، کے زمانہ میں ایک سے زیادہ عورتوں نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ مسیلمہ اور ایک مدعیہ نبوت عورت کی ناکامی نے دونوں کو متحد ہونے پر مجبور کیا۔ مشاورت ہوئی۔ دونوں تنہا تھے۔ ان کے پیرو مرشد علیہ اللعنتہ بھی آپہنچے۔ شیطنت کے پینگ بڑھے۔ بدکاری ومے خواری کے لطف اڑے اور بی پیغمبرنی صاحبہ مسیلمہ سے روزے اور نماز بطور حق مہر بخشوا کر اور اپنا منہ کالا کر کے گھر کو سدھاریں۔
اس وقت سے لے کر اب تک مسلمانوں کو راہ ہدی سے منحرف کرنے کے لئے کئی خدا، کئی اوتار، کئی پیغمبر، کئی فرزندان خدا، اور کئی مہدی اس دنیا میں آچکے ہیں۔ آغا خان اپنے مریدوں کے لئے خود خدا ہے۔ اس کے غسل کا وہ پانی جو یورپ کی غلیظ ترین ناپاکیوں کا حامل ہوتا ہے بطور تبرک بٹتا اور سونے کے بھاؤ بکتا ہے۔ ہندوستان اور عرب میں ایسے گروہ موجود ہیں جو کسی داعی ظاہر یا باطن کی آمد کے منتظر بیٹھے ہیں۔ یا جن کی دانست میں اب ہادی آچکا۔ چنانچہ بلوچستان کے علاقہ مکران میں ایک قوم آباد ہے۔ جس کو ذکری کہتے ہیں۔ اس قوم کا خیال یہ ہے کہ (معاذ اﷲ)