لاتے ہیں اور پھر بھی کسی نتیجہ پر نہیں پہنچتے۔ لیکن جب ایک بارگی خود حقیقت ایک دوسرے انداز میں ہمارے سامنے آکھڑی ہوتی ہے تو ہمیں اپنی بیچارگی وجہل پر افسوس ہوتا ہے کہ یہی بات تو ہزار دفعہ دوران بحث ومناظرہ میں دلائل واعتراضات کی شکل میں ہمارے سامنے آئی۔ لیکن دل میں نہ اتر سکی۔ اب یہ کیا معاملہ ہے کہ یہی چھوٹی سی اور نہایت پیش پا افتادہ حقیقت ہماری آنکھیں کھول دینے کے لئے دل کی طرف بے اختیار بڑھ رہی ہے۔
بات یہ ہے کہ انسانی ذہن تک اترنے کے لئے بیچ کے کچھ زینے ہیں ان کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔ اگر ذہن صاف ہے دلائل میں کوئی الجھاؤ نہیں اور پیش کرنے کا ڈھب منطقی طور پر استوار ہے تو بات منوانے میں ایک منٹ کی تاخیر نہیں ہوگی۔ تاخیر والتواء یا ڈھیل کے تین ہی سبب ہوسکتے ہیں۔ یا تو جو بات آپ کہتے ہیں وہ مبنی برحقیقت نہیں۔ یا پھر سننے والے کا ذہن صاف اور اخاذ نہیں۔ یا پھر مسئلہ کو پیش کرنے کا ڈھنگ صحیح نہیں۔
کہنے کا ڈھنگ
اس تیسری بات کو میں زیادہ اہم سمجھتا ہوں۔ میرے نزدیک کہنے کا اسلوب زیادہ درخور اعتنا ہونا چاہئے۔ بارہا ایسا ہوا ہے کہ ذہن کی کجی اور غیر استواری کے باوجود جب کوئی بات ڈھب کی کی گئی تو اس نے دل میں کہیں نہ کہیں جگہ پیدا کر ہی لی۔
ڈھنگ سے کیا مقصود؟
ڈھنگ سے کہنے سے مقصود صرف لفاظی نہیں۔ یا فصاحت وبلاغت نہیں کہ اس کا مرتبہ بعد کا ہے۔ اصل شے یہ ہے کہ جس مسئلہ کو آپ ثابت کرنا چاہتے ہیں پہلے آپ یہ دیکھ لیں کہ خود اس کا مرتبہ کیا ہے۔ یعنی یہ محکمی واستواری کے کس درجہ میں ہے۔ اس کے بعد اس پر غور فرمائیے کہ اب تک جو اسے پیش کیاگیا ہے تو اس میں کن باریک علمی رعایتوں کو نظر انداز کردینے سے اس کی مؤثریت میں فرق آیا ہے؟ وہ کیا نفسیاتی یا منطقی نقائص ہیں۔ جن کی وجہ سے غلط فہمی پیدا ہوتی رہی۔ اسی کے بعد بھی اگر خصم نہیں مانتا تو پھر آپ کی ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے۔ پھر آپ کے پاس یہ معقول عذر ہے کہ ممکن حد تک آپ کوشش فرماچکے۔ مقدر کی خرابیاں آپ کے بس کا روگ نہیں۔ پانی میں سیدھی سے سیدھی شے بھی ٹیڑھی نظر آئے گی۔ فطرت کا بدلنا ہمارے لئے دشوار ہے۔
انہیں حقائق کے پیش نظر آئیے ہم مسئلہ ختم نبوت اور اس کے حدود اطلاق پر غور کریں اور دیکھیں کہ سقم کہاں پیدا ہوا؟ کیا صرف وہ نفسیاتی ہے یا استدلال واستنباط میں کہیں خامی ہے؟