’’۶دسمبر۱۹۳۴ء ج۲۲ش۶۹ ص۸ کے الفضل میں ضلع شیخوپورہ اور ضلع گورداسپور کے ایسے پانچ افراد کے نام درج تھے جنہیں محض اس وجہ سے جماعت سے نکال دیاگیا۔‘‘
قطع تعلق
قادیانیوں نے مسلمانوں سے محض نکاح وغیرہ کے معاملات ہی ختم نہیں کئے بلکہ قادیانیوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ مسلمانوں سے قطع تعلق کرلیں: ’’یہ جو ہم نے دوسرے مدعیان اسلام سے قطع تعلق کیا ہے اول تو یہ خدا تعالیٰ کے حکم سے تھا، نہ کہ اپنی طرف سے اور دوسرے وہ لوگ آباء پرستی اور طرح طرح کی خرابیوں میں بھی حد سے بڑھ گئے ہیں اور ان لوگوں کو ان کی ایسی حالت کے ساتھ اپنی جماعت کے ساتھ ملانا یا ان سے تعلق رکھنا ایسا ہی ہے جیسا کہ عمدہ اور تازہ دودھ میں بگڑا ہوا دودھ ڈال دیں۔ جو سڑ گیا ہے اور اس میں کیڑے پڑگئے ہیں۔ اس وجہ سے ہماری جماعت کسی طرح ان سے تعلق نہیں رکھ سکتی اور نہ ہمیں ایسے تعلق کی حاجت ہے۔‘‘
(ارشادمرزاقادیانی مندرجہ رسالہ تشحیذالاذہان ص۳۱۱)
’’اس کے بعد حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) نے صاف حکم دیا ہے کہ غیر احمدیوں کے ساتھ ہمارے کوئی تعلقات ان کی غمی اور شادی کے معاملات میں نہ ہوں۔ جبکہ ان کے غم میں ہم نے شامل ہی نہیں ہونا تو پھر جنازہ کیسا۔‘‘ (اخبار الفضل مورخہ۱۸جون۱۹۱۴ئ)
بالکل علیحدہ
اسی طرح کلمتہ الفصل میں صاحبزادہ بشیر احمد قادیانی نے بڑے واضح انداز میں اعلان کیا: ’’غیر احمدی سے ہماری نمازیں الگ کی گئیں۔ ان کو لڑکیاں دینا حرام قرار دیاگیا۔ ان کے جنازے پڑھنے سے روکا گیا۔ اب باقی کیا رہ گیا ہے۔ جو ہم ان کے ساتھ مل کر کرسکتے ہیں۔ دو قسم کے تعلقات ہوتے ہیں۔ ایک دینی دوسرے دنیاوی۔ دینی تعلق کا سب سے بڑا ذریعہ عبادت کا اکٹھا ہونا ہے اور دنیوی تعلقات کا بھاری ذریعہ رشتہ وناطہ ہے۔ سو یہ دونوں ہمارے لئے حرام قرار دئیے گئے۔ اگر کہو کہ ہم کو ان کی لڑکیاں لینے کی اجازت ہے تو میں کہتا ہوں نصاریٰ کی لڑکیاں لینے کی بھی اجازت ہے اور اگر یہ کہو کہ غیر احمدیوں کو سلام کیوں کہا جاتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث سے ثابت ہے کہ بعض اوقات نبی کریمﷺ نے یہود تک کو سلام کا جواب دیا ہے۔ ہاں اشد مخالفین کو حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) نے کبھی سلام نہیں کہا۔ نہ ان کو سلام کہنا جائز ہے۔
غرض ہر ایک طریقہ سے ہم کو مسیح موعود نے غیروں سے الگ کیا ہے اور ایسا کوئی تعلق