انہیں تغیرات سے بحث کی ہے۔ جیسے جرجانی کہ انہوں نے ’’التعریفات‘‘ اسی غرض سے لکھی یا تھانوی، جنہوں نے ’’کشاف اصطلاحات الفنون‘‘ جیسی ضخیم کتاب رقم فرمائی جو قریب قریب دوہزار صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔ ’’کلیات ابی البقا‘‘ کو بھی اسی ڈھب کی شئے سمجھئے۔ گویا لغت بھی ایک طرح کی تاریخ ہے۔جس طرح تاریخ میں سلاطین وملوک اور ان کے کارناموں سے بحث ہوتی ہے۔ جس طرح تاریخ میں سلاطین وملوک اور ان کے کارناموں کا سکہ کس کس اقلیم معنی میں چلاگیا اور پھر کب وہ متروک ہوگیا۔ اگر لغت کی یہ تعبیر صحیح ہے اور یقینا صحیح ہے تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ اگر ایک لفظ کی تعیین واطلاق میں فیروز آبادی تک کے لغت نگار متفق ہیں تو گویا نویں صدی کی ابتداء تک یہ ماننا پڑے گا کہ بجز اس کے اور کوئی معنی ذہنوں میں نہ تھے۔ ورنہ ہر ہردور میں ذخیرہ الفاظ میں مجازات واصطلاحات کا جو اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس کا پورا پورا ریکارڈ کتب لغت میں موجود ہے۔
فقیہ، اور مؤرخ میں فرق
یہی بات کہ اہل لغت جب کسی بات پر متفق ہوتے ہیں تو کیا ان کا یہ اتفاق اس نوعیت کا ہوتا ہے۔ جس طرح فقہاء کا ایک مسئلہ پر کہ اس میں عصبیت دلائل کا الزام ان پر دھرا جائے۔ یا وہ اس نوعیت کا ہوتا ہے۔ جیسے مؤرخین کا یہاں یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیونکہ اس کا جواب لغت کی اس تعبیر میں مل جاتا ہے۔ جو ہم نے بیان کی ہے۔ مؤرخین جب متفق ہوتے ہیں تو ان کے اتفاق کا سبب ایک واقعہ ہوتا ہے۔ جس میں تاویل کی کوئی لچک نہیں ہوتی اور ایک فقیہ جب متفق ہوتا ہے تو اس کا موجب دلیل ہوتی ہے۔ جس کے فہم میں دورائے ہو سکتی ہیں۔ لہٰذا، اہل لغت کا اتفاق اس حقیقت کا ہم معنی ٹھہرا کر تاریخی طور پر اس لفظ کے اطلاق میں گروہ علماء کے درمیان کوئی اختلاف رونما نہیں ہوا۔
تاریخ کے جستہ جستہ حوالے
اس وضاحت کے بعد کہ لغت نگار صرف لغت نگار ہی نہیں ہوتے۔ مؤرخ بھی ہوتے ہیں۔ جستہ جستہ حوالوں پر غور فرمائیے۔ ازہری، ہروی، المتوفی ۳۷۰ھ کا لغت نویسوں میں جو مقام ہے اس کا اندازہ اس سے کیجئے کہ الفاظ کی چھان بین کے شوق بے پایاں نے انہیں گھر سے نکالا تو ایک بدوی قبیلہ نے خوبی قسمت یا شومی قسمت سے انہیں پکڑ لیا۔ برسوں انہیں کی قید میں رہے۔ اس سے ان کو موقعہ ملا کہ بغیر آمیزش کے بادیہ عرب کی اصلی وحقیقی زبان تک ان کی رسائی ہو۔