نزدیک نجات کا انحصار اعمال پر نہیں، کفارہ پر ہے۔ لیکن اسلام کا مزاج اس ذہنیت سے بالکل مختلف ہے۔ وہ تو موت سے پہلے کی زندگی میں اور آخرت وعقبیٰ کی زندگی میں کوئی خط امتیاز نہیں کھینچتا بلکہ اس کے نزدیک تو یہ پہلی زندگی دوسری زندگی کی تمہید یا نتیجہ ہے۔ اسلام جس عقیدے کی تلقین کرتا ہے وہ یہ ہے کہ دنیا اگرچہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ٹھہراؤ کی جگہ نہیں۔ تاہم اس کے فرائض وواجبات میں جن سے ادنیٰ تغافل بھی رہبانیت ہے۔ یہاں رہنے اور بسنے کے کچھ شرائط ہیں۔ جن کو بہرآئینہ ملحوظ رکھنا چاہئے۔ اسلام تمدنی ارتقاء میں پورا پورا حصہ دار ہے۔ ایک مسلمان کی بہترین آرزو اس کے نزدیک یہی ہے کہ وہ ’’وقنا عذاب النار‘‘ سے پہلے حسن دنیا کا طالب ہو۔ کہ عروس دنیا کے گیسوئے پیچیدہ کو اگر سلجھا لیا گیا تو آخرت کا مسئلہ آسان ہے۔
جسم ناپاک نہیں۔ یہ دنیا اور اس کی فطرت بھی گناہ ومعصیت سے آلودہ نہیں۔ بلکہ ارادہ وشعور اور عمل کے خاص خاص نقشے یا چوکھٹے اسے ناپاک یا پاک ٹھہراتے ہیں۔ غرضیکہ جب اسلام کا معاملہ دوسروں سے مختلف ہو تو اسے منجملہ دوسرے مذاہب کے ایک مذہب قرار دینا اور پھر ترقی کی راہ میں مانع سمجھنا منطقی غلطی ہے۔
تنبیہ کی ضرورت
یہ اصول منطق میں نہایت پیش پا افتادہ ہے کہ جب دعویٰ خاص ہو تو اس کے ثبوت میں دلیل کو بھی خاص اور متعین ہونا چاہئے۔ لیکن اگر آپ مباحثات کا جائزہ لیں گے تو وہ دینی ہوں یا سیاسی ان میں اسی مغالطہ کو زیادہ جاری وساری پائیے گا کہ دعویٰ ودلیل میں باہم مناسبت نہیں۔ ایک کا مزاج متعین ہے اور دوسرا غیر متعین۔ عموم کا رنگ لئے ہوئے اس لئے اس پرتنبہ ضروری تھا۔ کیونکہ آئندہ تفصیلات میں اور مخالفانہ انداز بحث میں باربار اسی غلطی کا ارتکاب دیکھئے گا۔
خلاصہ بحث
ان مقدمات کی وضاحت کے بعد اب ہم اس موڑ تک پہنچ گئے ہیں جہاں سے نفس موضوع کا آغاز ہونا چاہئے۔ اب تک جو کچھ ہم نے کہا ہے اس کا ملخص یہ ہے کہ مسائل کے فہم کے لئے سب سے پہلے ذہن کا صاف ہونا ضروری ہے۔ بالخصوص مناظرانہ کج بحثی سے جو غوروفکر کی صلاحیتوں میں ایک طرح کا بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے اور تنگ نظری اور چھچھور پن سے جو اس کا منطقی نتیجہ میں بچاؤ لازمی ہے۔ اسی طرح یہ بھی لازمی ہے کہ کسی مسئلہ پر غور کرتے وقت ایک مرتبہ اس