’’والسبقون الاولون من المھٰجرین والانصار والذین اتبعوہم باحسان رضی اﷲ عنہم ورضوا عنہ‘‘ {اور مہاجرین وانصار میں سے جن لوگوں نے سبقت کی اور وہ لوگ جو ان کے بعد خلوص دل سے داخل ایمان ہوتے ہوئے خدا ان سے خوش اور وہ خدا سے خوش۔}
غرض یہ ہے کہ جب عصبیت وسازش نے مل کر ایک نیا روپ دھارا تو ضرورت محسوس ہوئی کہ عقیدت ومحبت کی موجودہ سمتوں کو بدلا جائے۔ کیونکہ اگر محبتوں کے باب میں تو ازن اور فرق مراتب کا یہ انداز قائم رہتا ہے تو پھر یہ سازش کامیاب نہیں رہتی اور اس اختلاف کے لئے کوئی وجہ جواز نہیں رہتی جو صحابہؓ سے ہے۔ کیونکہ یہی تو دین کے حامل وسرچشمہ اور مبلغ ہیں۔ انہیں کی وساطت سے دین ہم تک پہنچا ہے۔
عصمت آئمہ کے عقیدے کو ماننے کی ضرورت یوں بھی محسوس ہوئی ہے کہ شیعہ حضرات چونکہ اصولاً ان ذرائع ہی کے قائل نہیں جن سے احادیث کا بہت بڑا ذخیرہ ہم تک منتقل ہوا۔ مزید برآں ان کے ہاں ہمیشہ سیاسی خلفشار میں رہنے کی وجہ سے کوئی سلسلہ روایت مرتب نہ ہوسکا جو آنحضرتؐ تک پھیلاہوا ہو اور جس کی ایک ایک کڑی نقاد ان فن کے سامنے ہو۔ اس لئے مرویات کے اس نقص کو چھپانے اور جرح ونقد کے تیز کانٹوں سے بچنے کے لئے عصمت آئمہ کا ایک عقیدہ گھڑاگیا۔ تاکہ جب بات ان کی طرف منسوب ہوجائے تو اس پر کوئی رائے زنی نہ ہوسکے اور چپ چاپ سے مان ہی لیا جائے۔
ختم نبوت ایک مثبت عقیدہ ہے
غرض جہاں تک ختم نبوت کے حدود کا تعلق ہے اس میں یہی چیز داخل نہیں کہ آپ آنحضرتؐ کے بعد کسی نبوت کے قائل ہیں یا نہیں۔ یہ شے بھی داخل ہے کہ عقیدت ومحبت کے نئے نئے محور اب تلاش نہیں کئے جائیں گے اور قیامت تک کے لئے یہ کافی ہوگا کہ کتاب وسنت کی روشنی سے استفادہ کیا جائے گا۔ اب کسی کی ذات کا ماننا یا نہ ماننا کفر واسلام اور ہدایت وگمراہی کا معیار نہ بن سکے گا اور کوئی شخص بھی اس موقف پر فائز نہیں ہوگا کہ اس کی وجہ سے ہدایت رہنمائی کی سمتیں بدل جائیں اور کوئی عصبیت اور گروہ بندی جائز نہ ہوگی جس سے کتاب وسنت کا مرتبہ ثانوی ہوجائے۔
ختم نبوت ایک مثبت اور ایجابی عقیدہ ہے اور ایک طرح کا پیرایہ بیان ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وحی والہام کا وہ انداز جو اطاعت وتعبد کا مقتضی ہے تکمیل تک پہنچ چکا اور ہدایت