مسئلہ کے کسی پہلو پر روشنی پڑتی ہے۔ یہ سب متعلقات مل کر ایسی مکمل اور جامع اور ایسی واضح اور روشن تصویر آپ کے سامنے پیش کریںگے کہ اتنی وضاحت وجامعیت سے وہ کسی ایک جگہ نہیں مل سکے گی۔ یعنی دلائل ومؤیدات کے پورے پھیلاؤ کو پہلے اپنے سامنے لائیے۔ پھر یہ دیکھئے کہ اب آپ کے تأثرات کیا ہیں؟ یقینا اس طرح کا یہ تأثر اس تأثر سے بالکل مختلف ہوگا۔ جو اس ترتیب کے ملحوظ نہ رکھنے سے پیدا ہوتا ہے۔ یوں ایک شبہ جو ایک جگہ ابھرتا ہے دوسری جگہ زائل ہو جائے گا۔ یعنی اگر ایک مخصوص وضاحت ایک آیت میں آپ کو نہیںملے گی تو وہ دوسرے انداز سے دوسری جگہ مل جائے گی۔ یہی حال احادیث کا ہے کہ ان کو ساتھ ساتھ رکھنے سے شک وشبہ کی تمام گنجائش ختم ہوجاتی ہیں۔
ایسی صورت میں مسئلہ کی لغوی اور ادبی تصریحات کی بھی چنداں ضرورت نہیں رہے گی اور ’’یفسر بعضہ بعضاً‘‘ کا وہ منظر آپ کے سامنے آئے گا کہ جس سے کامل انشراح صدر کے مواقع ملیںگے۔
اس سلسلہ میں مناظروں کا عامتہ الورود دھوکہ یا گھپلا یہ ہوتا ہے کہ اس تأثر کو وہ زائل کریں۔ جو تصویر کے پورے رخوں کو دیکھنے سے پیدا ہوا ہے۔ یعنی ایک ڈاکو کی طرح جو بھیڑ اور ہجوم سے بچتا ہے اور اکے دکے مسافر پر حملہ کرتا ہے۔ یہ صرف ایک ایک آیت کو بحث کے لئے چنتے ہیں اور ایک ایک حدیث کو مجموعی تأثر سے الگ کر کے حملہ آور ہوتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ذہن میں چونکہ مسئلہ کے تمام پہلو نہیں رہتے۔ اس لئے کمزور عقل اور تھوڑے علم کا آدمی آسانی سے ان کی تاویلات کا شکار ہوجاتا ہے۔
تیسرا اصول
فکرواستدلال کی گاڑی کو کامیابی کے ساتھ منزل مقصود تک پہنچانے کے لئے اس مقدمہ کی رعائت بھی ضروری ہے کہ دعویٰ اور دلائل میں خصوص وتعیین کی مناسبت کا خیال رہے۔ یعنی جس درجہ دعویٰ میں تعیین اور تحدید ہے۔ اسی طرح دلیل کوبھی متعین وخاص (SPEC/FC) ہونا چاہئے۔ ورنہ یہ اندیشہ لاحق رہے گا کہ مدعی ومجیب دونوں اپنی اپنی ہانکتے رہیں اور تنقیح طلب نکات بدستور تشنہ ہی رہیں۔
فکرواستدلال کی عام لغزش
روداد مناظرات میں یہ مغالطہ عام ہے۔ ہر مناظر دعویٰ تو کرتا ہے۔ ایک لگے بندھے اور نپے تلے عقیدے کا اور دلائل ایسے پیش کرتا ہے کہ جن کے مزاج میں عموم تو ہوتا ہے۔ مگر وہ