کے کسی فرد کا ان کا جنازہ نہ پڑھنا کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔‘‘
(ٹریکٹ نمبر۲۲ بعنوان احراری علماء کی راست گوئی کا نمونہ، شائع کردہ مہتمم نشرواشاعت انجمن احمدیہ ربوہ)
اسی طرح ابھی کچھ عرصہ پہلے آزاد کشمیر کے ممتاز روحانی پیشوا ایڈووکیٹ پیرمقبول حسین گیلانی کا انتقال ہوا تو آزادکشمیر کے ایک مرزائی ایڈووکیٹ عبدالحئی نے موقع پر موجود ہونے کے باوجود نماز جنازہ نہیں پڑھی۔ حالانکہ پیرگیلانی پورے آزادکشمیر کی مشترک پسندیدہ شخصیت تھے۔
نکاح
امت مسلمہ سے مرزائیوں نے علیحدگی اس طرح اختیار کی کہ پھر مسلمانوں سے اپنے گروہ کے نکاح وغیرہ کے تعلقات بھی توڑلئے اورمسلمان اس مرحلہ پر سوچیں کہ قادیانیوں کے نزدیک ان کی کیا پوزیشن ہے۔
(۱۹۳۳ء ۱۴؍فروری کے الفضل ج۲۰ش۹۷ص۸) میں ناظر امور عامہ قادیان کا یہ اعلان شائع ہوا:
’’یہ اعلان بغرض آگاہی عام شائع کیا جاتا ہے کہ احمدی لڑکیوں کے نکاح غیر احمدیوں سے کرنے ناجائز ہیں۔‘‘
اسی طرح برکات خلافت کے ص۷۵پر میاں محمود خلیفہ قادیان نے لکھا :
’’حضرت مسیح موعود کا حکم اور زبردست حکم ہے کہ کوئی احمدی غیر احمدی کو اپنی لڑکی نہ دے۔ اس کی تعمیل کرنا ہر ایک احمدی کا فرض ہے۔‘‘
’’حضرت مسیح موعود نے اس احمدی پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے جو اپنی لڑکی غیر احمدی کو دے۔ آپ سے ایک شخص نے بار بار پوچھا اور کئی قسم کی مجبوریاں پیش کیں۔ لیکن آپ نے اس کو یہی فرمایا کہ لڑکی کو بٹھائے رکھو۔ لیکن غیر احمدیوں میں نہ دو۔ آپ کی وفات کے بعد اس نے غیر احمدیوں کو لڑکی دے دی تو حضرت خلیفہ اول نے اس کو احمدیوں کی امامت سے ہٹادیا اور جماعت سے خارج کردیا اور اپنی خلافت کے چھ سالوں میں اس کی توبہ قبول نہ کی۔ باوجود یکہ وہ بار بار توبہ کرتا رہا۔‘‘ (انوار خلافت ص۹۳)
اس طرح کی کئی مثالیں ملتی ہیں کہ ان افراد کو جماعت سے نکال دیا گیا جنہوں نے مسلمانوں کو اپنی لڑکیاں دی تھیں۔