اس سے اتنا فائدہ تو ہوا کہ یہود کی فقیہانہ بدکاری ختم ہوگئی۔ لیکن ایمان وعقیدہ کی روک اتنی مضبوط ثابت نہ ہوئی۔ جو فسق وفجور کی بوقلمونیوں پر قابو پاسکے۔ لہٰذا تاریخی طورپر ضرورت محسوس ہوئی کہ اب مذہب کا جامع اور آخری تصور رہنمائی کے لئے آگئے بڑھے۔ جو شریعت وایمان کے حدود کو متعین کر سکے۔ جو عقیدہ وعمل میں ٹھیک ٹھیک گرہ لگاسکے اور یہ بتاسکے کہ ایمان زندگی سے الگ کوئی چیز نہیں اور زندگی کا تصور اس ڈھنگ سے پیش کر سکے کہ گویا وہ اس درجہ فطری اور ضروری ہے کہ اس سے اغماض نفس زندگی کے اغماض کے مترادف ہے۔
عیسائیت ویہودیت کے اس بگڑے ہوئے تصور نے مذہب کو جس روپ میں پیش کیا اس کا قطعی طور پر یہ تقاضا تھا کہ انسان کو اب زیادہ پریشان نہ کیا جائے اور اسلام اپنی آخری ومتوازن تعلیمات کے ساتھ رہنمائی کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لے۔
مسائل کا فیصلہ کن انداز
مسائل کے باب میں بھی اسلام نے جو فیصلہ کن انداز اختیار کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہی دین خدا کا آخری اور مکمل دین ہے اور یہ حقیقت اتنی واضح اور نمایاں ہے کہ جن لوگوں نے بحث کے اس پہلو پر غور کیا ہے وہ اکثر مناظرانہ قیل وقال سے بے نیاز ہوگئے ہیں۔ یعنی اگر قرآن حکیم میں ختم نبوت سے متعلق کوئی تصریح مذکور نہ ہو۔ تکمیل دین کا کوئی مژدہ اس میں نہ ہو۔ تب بھی یہ دین اپنی جگہ اتنا مکمل اور جامع ہے کہ پہلی نظر سے اس کی جامعیت واکملیت کا یقین ہوجاتا ہے۔ یعنی اگر قرآن حکیم میں ختم نبوت سے متعلق کوئی تصریح مذکور نہ ہو۔ تکمیل دین کا کوئی مژدہ اس میں نہ ہو۔ تب بھی یہ دین اپنی جگہ اتنا مکمل اورجامع ہے کہ پہلی نظر سے اس کی جامعیت واکملیت کا یقین ہوجاتا ہے۔
آپ ہی بتائیے عقائد میں توحید سے آگے انسانی تصور کے لئے پرواز کی کوئی گنجائش ہے؟ اﷲتعالیٰ نے جس ڈھب سے اپنی صفات پیش کی ہیں۔ ان سے زیادہ بہتر انداز انسانی سمجھ بوجھ اختیار کر سکتی ہے۔ عبادات میں نماز سے زیادہ کامل زیادہ جامع اور زیادہ روحانیت آفریں نقشہ ہمارے ذہن میں آتا ہے؟ معاشرتی زندگی میں مرد اور عورت کے حقوق کی تعیین جس توازن سے اسلام نے فرمائی ہے اس میںکسی اصلاح وترمیم کے لئے کوئی جگہ چھوڑی ہے؟
سرمایہ اور محنت کے مسئلہ کو جس خوبی سے حل فرمایا ہے۔ انسانیت کے بڑے سے بڑے حامیوںکو بھی اس سے بہتر حل سوجھا ہے؟ یعنی زندگی کے پورے چوکھٹے کو اسلام نے جس طرح سجایا ہے۔ اس کی زیب وزینت پکارپکار کر اس کی تکمیل واتمام پر گواہی دے رہی ہے۔