اور بڑے بڑے ائمہ اس کی حقانیت سے اتنا ہی آگاہ ہوں۔ جتنا توحید قیامت اور عبادات کے مشہور مسائل سے۔
یہ کتنی مضحکہ خیز حرکت ہے کہ ختم نبوت ایسی حقیقت کے لئے جس کی قرآن میں وضاحت ہے جو حدیث میں صراحت سے مذکور ہے ہم مجبور ہوں کہ فکر واستدلال کی متعین راہوں سے ہٹ کر ادھر ادھر دیکھیں اور چند لوگوں کے اقوال پر اس کی بنیاد رکھیں۔
ان اقوال کی حیثیت ہمارے ہاں صرف اتنی ہے کہ یہ جن بزرگوں کی طرف منسوب ہیں ہم ان کے مرتبہ علمی اور مقام عملی کے قائل ہیں اور مانتے ہیں کہ ان کے عقائد امت کے مسلمات سے مختلف نہیں ہوسکتے۔ بالخصوص ایسے مسائل میں جن کی حیثیت اصول اور بنیاد کی ہے۔ امت کے ذہن سے علیحدہ ان کا ذہن ہونا قرین عقل نہیں۔ اسی مفروضے کی روشنی میں ہم ان کے اقوال پر نظر ڈالیںگے۔ ایک اور بات صوفیاء کے سلسلہ میں یہیں سمجھ لینا چاہئے کہ ان میں بعض لوگ ایسے ہیں جن پر سکرو جذب کی کیفیتیں اتنی غالب رہتی ہیں اور عمل وصحو اتنا مغلوب کہ وہ استواری کے ساتھ دینی مسائل پر غور کر ہی نہیں سکتے۔ ان کے شطحیات کے ہم قطعی پابند نہیں۔ وہ جو کچھ کہتے ہیں اس کی ذمہ داری صرف ان پر ہے۔ ہم اتنا کہہ کر عہدہ برا ہوجائیںگے کہ ان سے بادی النظر میں جو معنی ذہن میں آتے ہیں وہ ظاہر شریعت کے ساتھ میل نہیں کھاتے اور یہ کہ ان کا معاملہ اﷲ سے ہے۔
نبوت کا اطلاق
باقی رہے وہ صوفیاء اور بزرگ جو صحو استحضار سے بہرہ مند ہیں تو وہ البتہ ہماری توجہ کے مستحق ہیں۔ ہم نے جہاں تک ان کی کتابوں پر غور کیا ہے کہیں ایک مقام بھی ان میں ایسا نہیں ملا جس میں یہ مذکور ہوکہ آنحضرتﷺ کے بعد کوئی شخص اپنے الہامات یا بزرگی کے باعث اس لائق ہے کہ اس پر ایمان لانا ضروری ہو۔ جو صاحب دعوت ہونے کا استحقاق رکھتا ہو۔ جو ایمان وکفر کے درمیان حد فاصل ہو۔ جس کا ماننا تقاضائے اسلام ہو اور جس کا انکار نفس اسلام کے انکار کے مترادف ہو۔ ہاں وہ ولایت کو البتہ جاری سمجھتے ہیں اور پھر ولایت ہی کے ایک پہلو کو نبوت سے تعبیر کرتے ہیں۔ علمی اصطلاح میں آپ یوں سمجھئے کہ نبوت کا ایک اطلاق ان کے نزدیک یہ ہے کہ وہ ولایت کی قسم ہے۔ رسالت کی قسم نہیں۔ لہٰذا جب وہ یہ کہتے ہیں کہ نبوت کے فیوض جاری ہیں تو ان کی مراد اس سے یہ ہوتی ہے کہ ولایت جاری ہے۔ پھر اس نبوت کو جس کو نبوت ولایت کہنا چاہئے۔ اس نبوت سے جس کا ماننا ہرہر مسلمان پر ضروری ہے۔ لفظ تشریع سے جداکرتے