صرف اتنا ہی کرسکیں کہ انسانی معاشرہ کو تاریخ کے ایسے موڑ پر لاکر چھوڑ دے۔ جہاں اجتماعیت بیدار ہو اور آفاقیت کروٹ لے۔ اب یہ کام اسلام کا تھا کہ اس میں افاقیت وتکمیل کا رنگ بھردے۔
اسلام سے پہلے
تاریخ کی اس مناسبت پر جس سے اسلام آخری مذہب قرار پاتا ہے۔ ایک اور اعتبار سے بھی غور ہوسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ اس سے قبل کے مذاہب پر ایک تنقیدی نظر ڈال کر دیکھیں کہ انہوں نے رشدوہدایت کے تقاضوں کو کس حد تک تشنہ چھوڑا۔
مثلاً یہودیت کو لیجئے جن لوگوں نے اس کے مطالعہ میں تھوڑی سی بھی زحمت گوارا کی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ صدیوں کے تغیروتبدل کے بعد اس میں جو ہولناک عیب پیدا ہوگیا تھا۔ وہ مذہب کے باب میں ان کی وہ تنگ نظری تھی۔ جس کی وجہ سے زندگی کا پھیلاؤ سمٹ کر چند مسائل میں محدود ہوکررہ گیا تھا اور پھر اس پر مستزاد یہ کہ یہودی ان مسائل کے معاملہ میں بھی مخلص نہیں تھے۔ صرف الفاظ اور ظواہر کی حد تک پابندی کے قائل تھے۔ مذہب سے ان کی دلچسپی صرف اتنی ہی تھی کہ اس میں چند مسائل ہیں۔ چند احکام اور رسوم ہیں۔ جن کی ٹھیک ٹھیک تعیین اور وضاحت ہونا چاہئے، عمل ضروری نہیں۔ چنانچہ قرآن حکیم نے ان کی اسی کمزوری کی طرف اس مشہور واقعہ میں اشارہ کیا ہے کہ جب انہیں ایک قتل کے سلسلہ میں گائے ذبح کرنے کو کہاگیا تو انہوں نے اس پر بڑی جرح کی۔ قانون اور ضابطے کی رعایت سے مین میخ نکالی اور بظاہر ذبح کرنے پر مجبور بھی ہوگئے۔ لیکن دلوں کی حالت یہ تھی کہ وہ اس کے لئے قطعی آمادہ نہیں تھے۔
’’فذبحوھا وما کادوا یفعلون‘‘ {اس پر انہوں نے گائے ذبح تو کرڈالی لیکن وہ ایسا کرنے کے نہیں تھے۔}
دین کے اس جزوی تصور اور کھوکھلے لفظی لگاؤ کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک دوسرے خیال کے لئے فضا ہموار ہوگئی۔
عیسائیت کیونکر پیدا ہوئی
اور وہ یہ تھا کہ شریعت کی پابندی ہی انسان کے لئے غیرفطری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان اس سے جی چراتا اور پہلو تہی کرتا ہے۔ اس لئے دین کا تصور ہی ایسا ہونا چاہئے کہ اس میں سواناگزیر اخلاقی پابندیوں کے اور کوئی شرعی ودینی پابندی نہ ہو۔ یہ وہ زمانہ ہے جب کہ عیسائیت آگے بڑھتی ہے اور پولوس اس اصول کو بنیادی عقیدے کے طور پر پیش کرتا ہے۔ یعنی صاف صاف کہتا ہے کہ شریعت معاذ اﷲ لعنت ہے اور مدار نجات عمل نہیں۔ بلکہ عقیدہ اور ایمان ہے۔