جس قدر پیش گوئیاں بھی کیں وہ (احمد بیگ مرحوم کے سوا) سب کی سب غلط ثابت ہوئیں اور دوسرے! یوں کہ مرزاقادیانی نے ناکامی سے غصہ کھا کر اپنی پہلی بیگم صاحبہ محترمہ سے قطع تعلق کرلیا۔ انہوں نے اپنی سمدھن کو یہ دھمکی دی کہ اگر وہ اپنے بھائی (محمدی بیگم کے والد) کو دباؤ ڈال کر رشتہ دینے پر راضی نہ کرے گی تو اس کی لڑکی کو طلاق دلوادی جائے گی۔ ناکامی کی صورت میں مرزاقادیانی نے اپنے لڑکے فضل احمد بیگ کو مجبور کیا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے۔ حالانکہ اس عفیفہ کا کوئی قصور نہ تھا اور وہ اپنی عمر اور حالت کے لحاظ سے محمدی بیگم صاحبہ کا رشتہ دلوانے میں کوئی بااثر مداخلت نہیں کرسکتی تھی۔
انتہاء یہ ہے کہ جب فضل احمد بیگ صاحب نے اپنے والد ماجد یعنی مرزاقادیانی کے اشارے پر ناچنے سے انکار کردیا اور بیگناہ بیوی کو طلاق نہ دی تو مرزاقادیانی اس سے ناراض ہوگئے اور اسے عاق اور محروم الارث کردیا۔ حالانکہ عاق بیٹے کو بھی محروم الوارث کرنا شریعت کے خلاف ہے۔ میں جب اس واقعہ پر غور کرتا ہوں تو فضل احمد بیگ صاحب کی عزت میرے دل میں المضاعف ہوجاتی ہے۔ اس لئے کہ خدائے قدوس نے جہاں یہ حکم دیا ہے کہ کوئی فرزند والدین کے سامنے (جب وہ بہت بوڑھے ہوجائیںتو) اف بھی نہ کرے۔ وہاں یہ بھی حکم دیا ہے کہ شریعت کے خلاف والدین کے احکام کی پابندی نہ کی جائے اور کسی گروہ، قوم یا خاندان کی عداوت کی وجہ سے مسلمان کو جادۂ عدل وانصاف سے کبھی منحرف نہیں ہونا چاہئے۔
مرزاقادیانی نے اپنے بیٹے مرزاسلطان احمد بیگ سے بھی قطع تعلق کرلیا۔ ان دونوں بھائیوں نے حفظ حدود شریعت کے لئے مالی لحاظ سے بہت بڑا نقصان اٹھایا۔ اگر وہ شریعت کو چھوڑ کر مرزاقادیانی کو راضی رکھتے تو آج قادیان کی لاتعداد دولت کے مالک ہوتے۔ مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ جزاہم اﷲ تعالیٰ!
مرزاقادیانی نے خفا ہوکر جو کچھ کیا وہ ان کے ایسے بلند پایہ انسان کی شان کے لائق نہ تھا۔ مرزاقادیانی کی اردو کمزور اور پھس پھسی تھی تو کیا، وہ متبحر عالم تو تھے۔ لہٰذ ا یہ سب افعال ان کی شان سے بطور عالم وانسان بعید تھے تابہ نبی اﷲ چہ رسد۔
قسط بست ودوم
مرزاقادیانی کے ایسے افعال واقوال جو ایک عام انسان کی شان شایان بھی نہیں ہیں۔ اسی ایک مثال تک محدود نہیں ہیں کہ انہوں نے ایک عورت کے حصول میں ناکام ہوکر اپنی رفیقہ حیات اور اپنی اولاد پر سختی روا رکھی۔ بلکہ اس کی کئی مثالیں آسانی سے پیش کی جاسکتی ہیں۔ لہٰذا