ہمارے نزدیک اوّل تو اسلام ہماری تمام ضروریات کا کفیل ہے اور اس کے مضمرات میں وہ سب کچھ موجود ہے جس کی عصر حاضر کو ضرورت ہے اور تعلیم وارشاد کے داعیات نے اگر کسی وقت جبرائیل علیہ السلام کو پکار ہی لیا تو اس وقت ظل وبروز سے کام نہیں چلے گا۔ بلکہ ایک ایسی شریعت کے دروازے کھلیںگے جو ہر اعتبار سے نئی ہوگی۔ جن لوگوں کو دور حاضر کی دینی نفسیات کو ٹٹولنے کا موقع ملا ہے۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ اس وقت کا انسان مذہب کے معاملہ میں کس اضطراب میں مبتلا ہے۔ وہ یا تو اسلام کی ایسی جچی تلی تعبیر کا طالب ہے جو حد درجہ مختصر ہو۔ معقول ہو اور موجودہ عصر کے تمام تقاضوں کا باحسن وجہ ساتھ دے سکے اور یا پھر وہ ایسے مذہب کو مانے گا جو بنیادی واساسی اقدار کے لحاظ سے تو ماضی سے ایک رشتہ ونسب رکھتا ہو۔ مگر اپنے اسلوب، تفنن اور اخلاق کے اعتبار سے بالکل ہی نئی شے ہو۔
آپ ہی بتلائیے جب ذہنوں کی یہ کیفیت ہو اور تشنگی وطلب کا یہ عالم ہو تو شراب سے پیاس بجھ سکے گی؟ نبوت کے ظلی وبروزی تصور سے پیش آیند مسائل کا حل ڈھونڈا جاسکے گا؟ مرزائیت نئے زاویوں سے ایسے ہی تنقیدی مضامین پر مشتمل ایک مجموعہ ہے۔ جن سے یہ اندازہ ہو سکے گا کہ یہ تصور جس کو مرزاقادیانی نے پیش کیا ہے۔ نہایت ہی گھٹیا، غیر حکیمانہ اور بیکار ہے۔ اس سے مذہب ودین کا کوئی تقاضا پورا نہیں ہوپاتا اور اس سے سوا، قیل وقال اور چند حوالوں اور مناظرانہ ہتھکنڈوں کے اور کچھ حاصل نہیں۔ اس سے نہ ذہن کو فلسفہ کی بلندیاں میسر آتی ہیں، نہ ذوق میں ادب ولسان کی چاشنی کا اضافہ ہوتا ہے اور نہ عمل ہی کو نئی سمتیں ملتی ہیں۔
ہم مکتبہ ادب ودین کے ممنون ہیں کہ انہوں نے ’’الاعتصام‘‘ میں چھپے ہوئے ان مضامین کو خاص سلیقے سے جمع کیا اور شائع کیا ہے اور امید رکھتے ہیں کہ اس سے ان لوگوں کو بہت فائدہ پہنچے گا۔ جو غلط فہمی سے مرزائیت کا شکار ہوگئے ہیں۔ محمد حنیف ندوی!
پیش لفظ
(مولانا محمد جعفر صاحب پھلواری ندوی)
مرزاغلام احمد قادیانی اپنے ایک رسالے میں موٹے حروف سے لکھتے ہیں کہ: ’’گورنمنٹ برطانیہ کی اطاعت عین عبادت ہے۔‘‘ (ملخص مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۱)
غالباً اسی وجہ سے ان کو بعض حضرات نے ’’سرکاری نبی‘‘ کا خطاب دیا ہے۔ پنجاب سائیکل مارٹ لکھنؤ کے ایک کرم فرمانے دوران گفتگو میں فرمایا کہ آیت ’’اطیعوا اﷲ واطیعوا