سوم…
یہ کہ ان کی کتاب ان کی تعلیم کا صحیح مرقع پیش نہیں کرتی۔ بلکہ اس میں تحریف کی گئی ہے اور اس وجہ سے مرزاقادیانی نے ان کو نبی قرار دے کر کرشن ہونے کا دعویٰ کیا۔
بہرحال اگر صورت معاملہ یہ ہے تو پھر بحث کا اصول یہ ہوگا کہ ہم قرآن الحکیم کو کسوٹی بناکر اس پر مرزاقادیانی کے اس دعویٰ کو پرکھیں کہ انہیںخدا کی طرف سے علم دیاگیا تھا کہ کرشن جی نبی تھے۔
قسط سی وسوم (۳۳)
مجھے معلوم نہیں کہ مرزاقادیانی نے کرشن جی مہاراج کے سر پر نبوت کا جو تاج رکھا ہے اس میں غیر قادیانی حضرات میں سے کتنے ان سے متفق ہیں۔ البتہ ایک صاحب کا مرزاقادیانی سے اس معاملہ میں اتفاق اظہر من الشمس ہے اور وہ مولوی ظفر علی صاحب مالک ومدیر جریدۂ زمیندار لاہورہیں۔ جن کا اخبار آئے دن برمحل وبے محل یہ اعلان کرتا رہتا ہے کہ کرشن جی پیغمبر تھے۔ باقی مسلمانوں میں سے بعض تعلیم یافتہ مسلمان یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ ہندوستان ایسے وسیع ملک اور ہندوؤں ایسی بڑی قوم کا پیغمبر خالی ہونا خارج از امکان ہے۔ لہٰذا اگر کرشن جی کو پیغمبر مان لیا جائے تو اس میں حرج کیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ قرآن پاک میں خدائے قدوس نے خود فرمایا ہے کہ ہر قوم کے لئے ہم نے ہادی بھیجا اور کوئی گاؤں ایسا نہیں جس میں ہمارا پیام نہیں پہنچا۔
میں عرض کروں گا کہ میرا بھی یہ ایمان ہے کہ ہندوستان چھوڑ، پنجاب میں بھی پیغمبر آئے اور پنجاب یا تبت یا چین کا ایک قریہ بھی ایسا نہیں جس میں خدا کا پیام نہ پہنچا ہو۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں بھی عذر نہیں کہ ہر گاؤں میں کوئی ڈرانے اور بشارت دینے والا آیا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ وہ رسول اﷲﷺ کے زمانہ سے پہلے مبعوث ہوا ہو۔ اس لئے کہ خاتم النبیین کے بعد بعثت انبیاء بند ہوچکی۔ اس پر مرزاقادیانی کے ادعائے نبوت کی ذیل میں کافی بحث کرچکا ہوں اوراس موضوع پر اس وقت کچھ لکھنا غیر ضروری ہے۔ نیز کرشن جی چونکہ حضرت خاتم الانبیاء سے پہلے پیدا ہوئے تھے۔ لہٰذا ان کی نبوت کے مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے بعثت احمد مجتبیٰ محمد مصطفیﷺ کے بعد کسی کا مبعوث ہونا خارج از بحث ہے۔
بہرکیف مجھے یہ تسلیم ہے کہ ہندوستان میں ایک چھوڑ متعدد نبی پیدا ہوئے اور مجھے یہ بھی تسلیم ہے کہ قرآن پاک کے چوبیسویں پارہ کے ربع ثالث یعنی سورۃ المؤمن میں اﷲتعالیٰ امی لقب (فداہ روحی) کو مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ: ’’اے پیغمبر تحقیق ہم نے آپ سے پہلے رسول بھیجے۔ جن میں سے