دکھایا کہ: ’’مرزاقادیانی نے فرمایا دیکھو میری بیماری کی نسبت بھی آنحضرتﷺ نے پیش گوئی کی تھی جو اس طرح وقوع میں آئی کہ آپ نے فرمایا تھا کہ مسیح آسمان پر ہے۔ جب اترے گا تو دوزرد چادریں اس نے پہنی ہوںگی۔ سو اسی طرح مجھ کو دو بیماریاں ہیں۔‘‘
اس کے جواب میں احمدی مناظر کچھ جواب نہ دے سکا۔ نہ الٹا نہ سیدھا۔ فالحمدﷲ علی ذالک! پہلا مناظرہ مورخہ ۲۰؍مارچ کا صبح ۸بجے سے ۱۱بجے تک کا ختم ہوا۔
دوسری نشست مناظرہ برصدق وکذب مرزا
اس دوسرے مناظرہ ’’کذب وصدق مرزا‘‘ میں بھی مدعی جماعت احمدیہ تھی۔ ان کی طرف سے ملک عبدالرحمن صاحب گجراتی اور اہل اسلام کی طرف سے مولانا محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی۔ ملک عبدالرحمن صاحب نے پہلی دلیل صدق مرزا پر یہ دی کہ بعد دعویٰ نبوت ہر ایک نبی پر اعتراض ہوتے ہیں۔ اس لئے خداتعالیٰ نے صداقت انبیاء پر یہ معیار پیش کیا ہے کہ ان کی پہلی زندگی بحیثیت پاکیزگی، امانت، دیانت پیش کی۔ چنانچہ ارشاد ہے۔ ’’فقد لبثت فیکم عمراً من قبلہ افلا تعقلون‘‘ میں رہ چکا ہوں تو تم میں اس سے پہلے کیا تم عقل نہیں کرتے۔
ایسا ہی مرزاقادیانی کے متعلق ہوا کہ آپ کی ابتدائی زندگی پر کسی مخالف کو گنجائش اعتراض نہیں۔ خود مولوی محمد حسین بٹالوی جو بعد میں اوّل المکفرین بنا وہ بھی حضرت مرزاقادیانی کی تعریف میں رطب اللسان تھا۔ ہم اپنے مخاطبوں سے بزور کہتے ہیں کہ وہ حضرت مرزاقادیانی کی پہلی زندگی پر کوئی اعتراض ثابت کریں۔
جواب از اہل اسلام
اس دلیل کا اہل اسلام کی طرف سے تین طرح پر جواب دیاگیا۔
اوّل جواب حضرت مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی
مرزاقادیانی کی ابتدائی زندگی جیسا کہ ظاہر کی جاتی ہے۔ پاکیزہ نہ تھی۔ (مثل مشہور ہے کہ دائی سے پیٹ چھپا نہیں رہتا۔ مرتب) ان کی پہلی زندگی کا حال ہم سے پوچھو۔ ہمارے شہر سیالکوٹ میںمرزاقادیانی بصیغہ ملازمت پندرہ روپیہ پر ملازم ہوکر گئے۔ وہاں بذریعہ رشوت وغیرہ خوب ہاتھ رنگے۔ یہ وہاں کی ہی دولت تھی۔ جس سے مرزاقادیانی نے چار ہزار کا زیور بعد میں اپنی زوجہ محترمہ کو بنواکردیا۔ اسی طرح جب آپ نے ملہم ہونے کی ڈینگ ماری اور حقانیت اسلام پر کتاب براہین احمدیہ لکھنی شروع کی تو ظاہر کیا کہ: ’’میرے پاس کچھ سرمایہ نہیں۔‘‘ اور اشتہار پر اشتہار دئیے کہ رئیسان اسلام اس کام میں میری معاونت کریں۔ چنانچہ اسی طرح آپ نے خوب روپیہ کمایا۔ اس کا اس سے