دو مختلف دعویٰ
نبوت تجدید
انبیاء علیہم السلام کو جہاں فکروعمل کی سینکڑوں خوبیوں سے بہرہ مند کیاجاتا ہے وہاں کھل کر اور وضاحت سے کہنے کی صلاحیت خصوصیت سے ان کو عطاء ہوتی ہے۔ یعنی ان میں یہ ملکہ ہوتا ہے کہ بات ایسے انداز اور ڈھب سے کہیں کہ سننے والے کے دل میں اتر جائے اور ایک متعین اثر پیدا کرے۔ یعنی ان کی دعوت کی حقانیت اور سچائی میں شبہ ہو تو ہو۔ سننے والے اس غلط فہمی میں ہرگز نہیں رہتے کہ یہ کہتا کیا ہے۔ زیادہ واضح اسلوب میں یوں سمجھئے کہ انبیاء علیہم السلام جب تشریف لاتے ہیں اور اپنے پیغام کو دنیا تک پہنچاتے ہیں تو وہ اپنے منصب اور دعویٰ کو اس ڈھنگ سے پیش کرتے ہیں کہ مخاطبین اولین کے لئے انکار کی گنجائش تو نکل سکتی ہے۔ مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ اس کی دعوت کی حقیقت ہی سرے سے ان پر مشتبہ ہوجائے۔ بالخصوص ان لوگوں پر مشتبہ ہونا تو قطعی قرین عقل نہیں جو پہلے ماننے والے ہیں۔ جنہوں نے ان کی تعلیمات کو اپنے کانوں سے سنا۔ کتابوں اور صحیفوں کو پڑھا اور خلوت وجلوت میں ان کے ساتھ شریک رہے۔ یہ تو بلاشبہ ہوا ہے کہ جب یہ پاکباز گروہ دنیا سے اٹھ گیا ہے تو اس دعوت کی مختلف تعبیریں ہونے لگیں۔ بلکہ اس کی تعیین تک میں شک وشبہ کی آندھیاں چلنے لگیں۔ لیکن یہ کبھی نہیں ہوا کہ مؤمنین کی صفوں میں اس طرح کا بنیادی اختلاف رونما ہو جائے۔ جواصل دعوت اور منصب ہی پر پردے ڈال دے۔ عقیدت وغلو نے بارہا ایک پیغمبر کو جو اﷲ کافرستادہ اور بندہ ہوتا ہے۔ الوہیت کی چوٹیوں تک پہنچایا ہے۔ مگر یہ کبھی نہیں ہوا ہے کہ اس کے ماننے والوں میں اس موضوع پر بحث چل نکلے کہ اس نے نبوت کا دعویٰ بھی کیا تھا یا نہیں؟ اور پھر یہ بحث بھی ایسی بے ڈھب کہ خود اس کی کتابوں سے دونوں طرح کی تائیدات مہیا ہوسکیں۔ کیونکہ انبیاء سب سے پہلے جس چیز کو صفائی اور وضاحت سے پیش کرنے پر مامور ہیں وہ یہی ان کا منصب اور دعوت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام انبیاء کی تاریخ میں ہمیں تین ہی طرح کے گروہ ملتے ہیں۔ ایک وہ جنہوں نے اﷲ کا رسول مان لیا۔ دوسرا وہ جنہوں نے انکار کیا اور تیسرا وہ جن پر جہل اور غلو کی وجہ سے ان کی دعوت مشتبہ ہوگئی۔ مگر یہ واضح رہے کہ یہ گروہ مخاطبین اوّلین اور مؤمنین کا نہیں ہوتا۔ بلکہ ان میں کچھ تو وہ لوگ ہوتے ہیں جو براہ راست ان ذرائع تک دسترس ہی نہیں رکھتے جو حقیقت تک پہنچا سکیں اور کچھ وہ مخالف ہوتے ہیں جو دینی حقیقت کو عمداً عقیدت ومحبت کے روپ میں پیش کر کے بگاڑنا چاہتے ہیں۔ جیسے عیسائیت کے معاملہ میں ہوا کہ