بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
’’الحمد لللّٰہ وکفیٰ والصلوٰۃ والسلام علیٰ من لا نبی بعدہ والہ واصحابہ اجعمین‘‘
حضورﷺ کی پیش گوئی
حضورﷺ کی زبان صداقت ترجمان نے آج سے چودہ صدیاں پہلے ہی امت کو خبردار کیا تھا۔ ’’مجھے اپنی امت کے حق میں گمراہ کرنے والے لوگوں (یعنی خانہ ساز نبیوں) کی طرف سے بڑا کھٹکا ہے اور میری امت میں ضرور تیس کذاب پیدا ہوںگے۔ جن میں سے ہر ایک مدعی ہوگا کہ وہ خدا کا نبی ہے۔ حالانکہ میں آخری نبی ہوں۔ میرے بعد کوئی نبی مبعوث نہ ہوگا۔‘‘
(بخاری ومسلم)
حضورﷺ کے صحابی حضرت حذیفہؓ بہت پریشان رہا کرتے تھے کہ کہیں اس طرح کے کسی شر اور فتنہ میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ چنانچہ انہوں نے ایک مرتبہ حضورﷺ کی خدمت میں عرض کیا: ’’یا رسول اﷲﷺ ہم جاہلیت کے تاریک ترین دو ر میں بڑے زیاں کار تھے۔ خدائے ذوالمنن نے ہمیں نعمت اسلام سے نوازا۔ لیکن یہ تو فرمائیے کہ اس خیروبرکت کے بعد بھی کوئی بھلائی عرصۂ ظہور میں آئے گی۔ فرمایا، ہاں لیکن اس میں کدورت ہوگی۔ پوچھا کدورت کس قسم کی ہوگی۔ فرمایا ایسے ایسے لوگ ظاہر ہوںگے جو میری راہ ہدایت سے منحرف ہوکر اپنا علیحدہ طریقہ اختیار کریںگے جو شخص ان کی بات پر کان دھرے گا اور عمل پیرا ہوگا اسے جہنم واصل کر کے چھوڑیںگے۔ حضرت حذیفہؓ نے کہا یا رسول اﷲﷺ ان کی علامات کیا ہے۔ فرمایا وہ ہماری ہی قوم میں سے ہوںگے۔ (یعنی مسلمان کہلائیںگے) ان کا ظاہر تو علم وتقویٰ سے آراستہ ہوگا۔ لیکن باطن ایمان وہدایت سے خالی ہوگا۔ وہ ہماری ہی زبانوں کے ساتھ کلام کریںگے۔ حذیفہؓ نے گذارش کی یا رسول اﷲﷺ تو پھر آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں۔ فرمایا: اے حذیفہؓ جب ایسا وقت آجائے تو مسلمانوں کی جماعت میں لازمی طور پر شریک حال رہنا اور مسلمانوں کے امام وخلیفہ سے انحراف نہ کرنا۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اﷲﷺ اگر ایسا وقت ہو کہ مسلمانوں کی کوئی جماعت ہی نہ رہے اور ان کا کوئی امام بھی نہ ہو تو پھر کیا کرنا ہوگا؟ فرمایا اگر ایسی حالت رونما ہو تو پھر گمراہ فرقوں سے الگ رہنا۔ اگرچہ تمہیں درختوں کے پتے اور جڑیں چبا کر ہی گزر اوقات کرنا پڑے۔‘‘ (بخاری ومسلم)