بھاپ بظاہر کتنی ہلکی شے ہے۔ لیکن یہی ترتیب پاکر اور دوسرے کل پرزوں سے مل کر بڑے بڑے انجنوں کو بجلی کی سی رفتار سے حرکت دیتی اور چلاتی ہے۔
حسن کی حقیقت
جمالیات میں بھی یہی اصول کارفرما ہے۔ یہاں بھی حسن کا مفہوم یہ نہیں کہ لذت نظر کا پورا پھیلائو جسم کے ایک ہی حصہ میں سمٹ آیا ہے۔ بلکہ یہ ہے کہ وہ ایک بالکل نئی حقیقت ہے۔ جو مختلف حقیقتوں کے امتزاج وترتیب سے پیدا ہوتی ہے۔ یعنی صرف کاکل وگیسو کا پیچ وخم ہی اسے معرض ظہور میں نہیں لاتا۔ بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی شرط ہے کہ اس کا تعلق ایک حسین چہرہ سے بھی ہو۔ پھر وہ حسین چہرہ بھی تنہا کوئی شے نہیں۔ جب تک ایک براق اور صراحی دار گردن نے اسے نہ تھام رکھا ہو اور بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی پھر اس گردن کو بھی اس طرح کا ہونا چاہئے کہ جب نظر اس سے پھسلے تو ایسی جگہ جاکر رکے کہ اس رکاوٹ کے بعد دنیا کی اور کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے۔ پھر نظر اور خیال کی یہ بھی کوئی آخری رکاوٹ نہیں اور کئی چیزیں ہیں جو نظر کے دامن کو اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ مسکراہٹیں ہیں، انگڑائیاں ہیں، چال ہے، ادائیں ہیں اور خدا جانے کیا کچھ ہے؟ غرض یہ ہے کہ ان میں ایک ایک چیز کا علیحدہ علیحدہ اگر آپ تصور کریں گے تو ان میں کوئی کشش اور جاذبیت نظر نہیں آئے گی۔ لیکن جب ان سب کی مجموعی فوج تیار ہوگی تب فتوحات کی وسعتوں کے کیا کہنے۔
یہ حسن جو نغمہ وشعر میں مضمر ہے کہاں سے آیا ہے۔ محض حسن امتزاج ہی تو ہے۔ ایک عمدہ سے عمدہ شعر جو آپ کو تڑپادیتا ہے اور وجدطاری کردیتا ہے وہ جن الفاظ اور تراکیب پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان کو الگ الگ ہزاروں مرتبہ ہم پڑھتے اور دیکھتے ہیں۔ لیکن ہمارا ذہن کبھی متاثر نہیں ہوتا۔ پھر جب ایک صاحب فن ان الفاظ کو لے کر سلیقے سے ترتیب دیتا ہے تو اس میں بالکل نئی معنویت پیدا ہوجاتی ہے جو پہلے نہیں ہوتی۔ اسی طرح یہ حقیقت ہے کہ اگر ہمارا سائنس اتنی ترقی کرلے کہ وہ نغمہ کا ٹھیک ٹھیک تجزیہ کرسکے تو وہ آپ کو یہ بتاسکے گا کہ وہ راگ جو آپ کے لئے لذت گوش کا سامان بہم پہنچاتا ہے درحقیقت ایسی آوازوں کا مجموعہ ہے کہ جن کو اگر آپ الگ الگ سن پائیں تو بے توجہی یا نفرت سے منہ پھیرلیں۔
استدلال واستنباط کا معاملہ
غرض یہ ہے کہ ہرشے کے دومزاج ہوتے ہیں۔ ایک جب وہ تنہا ہو اور ایک جب وہ دوسری چیزوں کے ساتھ ملے۔ ٹھیک اسی طرح فکر وستدلال کا معاملہ ہے۔ یہاں بھی ایک حقیقت