مرزاقادیانی مسیح موعود مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مدارج عالیہ کو اصلیت سے کم یا استخفاف کی نظر سے دیکھتا ہے۔ ہم تمام احمدی جن کا کسی نہ کسی صورت میں اخبار پیغام صلح سے تعلق ہے۔ (یعنی جناب مولوی محمد علی صاحب جناب خواجہ کمال الدین صاحب، جناب مولانا غلام حسین صاحب پشاوری، جناب ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب، جناب ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب وغیرہ) خدا تعالیٰ کو جو دلوں کے بھید جاننے والا ہے۔ حاضر وناظر جان کر علی الاعلان کہتے ہیں کہ ہماری نسبت اس قسم کی غلط فہمی محض بہتان ہے۔ ہم حضرت مسیح موعود ومہدی معہود کو اس زمانہ کا نبی رسول اور نجات دہندہ مانتے ہیں اور جو درجہ حضرت نے اپنا بیان فرمایا ہے اس سے کم وبیش کرنا موجب سلب ایمان سمجھتے ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ اب دنیا کی نجات حضرت نبی کریمﷺ اور آپ کے غلام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لائے بغیر نہیں ہوسکتی۔‘‘ (پیغام صلح ج۱ نمبر۴۳، مورخہ ۱۶؍اکتوبر ۱۹۱۳ئ)
قسط ہفتم
مولوی محمد علی صاحب کے معتقدات کے متعلق بحث کو ختم کرنے سے پیشتر میں ایک اور حقیقت کو واضح کرنا چاہتا ہوں۔ دنیا اس حقیقت تلخ سے آگاہ ہے کہ مرزاقادیانی کے مرید عام مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں۔ مولوی محمد علی صاحب کو تسلیم ہے کہ تکفیر اسی صورت میں ممکن ہے کہ مرزاقادیانی کو نبی مانا جائے اور اس کا اظہار یوں ہوتا ہے کہ عام مسلمانوں کو کافر جاننے والے مرزائی ان کے پیچھے نماز ادا نہیں کرتے۔ چنانچہ اپنی کتاب (تحریک احمدیت ص۲۹) پر مولوی محمد علی لکھتے ہیں کہ: ’’بالآخر حضرت مولوی (نورالدین) صاحب کے انتقال کے بعد جماعت احمدیہ کے دو فریق ہو گئے۔ ایک فریق کا عقیدہ یہ رہا کہ جن لوگوں نے حضرت مرزاقادیانی کی بیعت نہیں کی۔ خواہ وہ انہیں مسلمان ہی نہیں مجدد اور مسیح موعود بھی مانتے ہوں اور خواہ وہ ان کے نام سے بھی بے خبر ہوں۔ وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور دوسرے فریق کا عقیدہ یہ رہا کہ ہر کلمہ گو خواہ وہ اسلام کے کسی فرقہ سے بھی تعلق رکھتا ہو۔ مسلمان ہے اور کوئی شخص اسلام سے خارج نہیں ہوتا۔ جب تک وہ خود رسول اﷲﷺ کی رسالت کا انکار نہ کرے۔ مسئلہ نبوت مسیح موعود جو آج کل فریقین کے درمیان اختلاف کا اہم مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ درحقیقت اسی مسئلہ تکفیر سے پیدا ہورہا ہے۔ کیونکہ تکفیر بغیر اس کے صحیح نہ ہوسکتی تھی کہ حضرت مرزاقادیانی کو منصب نبوت پر کھڑا کیاجائے۔‘‘