اڑایا ہے: ’’عیسائیوں نے بہت سے آپ کے معجزات لکھے ہیں۔ مگر حق بات یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ نہیں ہوا اور جس دن سے آپ نے معجزہ مانگنے والوں کو گندی گالیاں دیں اور ان کو حرام کار اور حرام کی اولاد ٹھہریا۔ اسی روز سے شریفوں نے آپ سے کنارہ کرلیا۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۶حاشیہ، خزائن ج۱۱ص۲۹۰)
’’یہ اعتقاد بالکل غلط اور فاسد اور مشرکانہ خیال ہے کہ مسیح مٹی کے پرندے بناکر اور ان میں پھونک مارکر انہیں سچ مچ کے جانور بنا دیتا تھا۔ نہیں بلکہ صرف عمل ترب (یعنی مسمریزم) تھا۔ بہرحال یہ معجزہ صرف کھیل کی قسم میں سے تھا اور مٹی درحقیقت ایک مٹی ہی رہتی تھی۔ جیسے سامری کاگوسالہ۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۳۲۲، خزائن ج۳ص۲۶۳)
’’ممکن ہے آپ نے کسی معمولی تدبیر کے ساتھ کسی شب کور وغیرہ کو اچھا کیا ہو یا کسی اور ایسی بیماری کا علاج کیا ہو۔ مگر آپ کی بدقسمتی سے اسی زمانہ میں ایک تالاب بھی موجود تھا جس سے بڑے بڑے نشان ظاہر ہوتے تھے۔ خیال ہوسکتا ہے کہ اس تالاب کی مٹی آپ بھی استعمال کرتے ہوں گے۔ اسی تالاب سے آپ کے معجزہ کی پوری حقیقت کھلتی ہے۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۷ حاشیہ، خزائن ج۱۱ص۲۹۱)
حضرت مریم پر بہتان
غرض کہ مرزا قادیانی کے لٹریچر کا مطالعہ کیا جائے تو یہودیوں سے یہی نظریاتی ہم آہنگی نظر آتی ہے۔ جس طرح یہودی حضرت مریم علیہاالسلام پر بہتان باندھتے ہیں اور ان پر دشنام طرازی کرتے ہیں اسی طرح مرزا قادیانی نے بھی اپنی کتابوں میں یہودیوں کی طرف سے عائد کردہ اس ذمہ داری کو پوری طرح ادا کیا ہے۔ حضرت مریم جیسی پاک دامن اور عفت مآب خاتون کے بارے میں مرزا قادیانی لکھتا ہے۔
’’اور مریم کی وہ شان ہے جس نے ایک مدت تک اپنے تئیں نکاح سے روکا۔ پھر بزرگان قوم کے نہایت اصرار سے بوجہ حمل نکاح کرلیا۔ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ برخلاف تعلیم تورات عین حمل میں کیوں کیا گیا اور بتول ہونے کے عہد کو کیوں ناحق توڑاگیا اور تعدد ازواج کی کیوں بنیاد ڈالی گئی۔ یعنی باوجود یوسف نجار کی پہلی بیوی کے ہونے کے مریم کیوں راضی ہوئی کہ یوسف نجار کے نکاح میں آوے۔ مگر میں کہتا ہوں کہ یہ سب مجبوریاں تھیں جو پیش آگئیں۔ اس صورت میں وہ لوگ قابل رحم تھے نہ قابل اعتراض۔‘‘ (کشتی نوح ص۱۷،خزائن ج۱۹ص۱۸) یہودیوں کے ساتھ مرزائیوں کی نظریاتی ہم آہنگی کی حقیقت توواضح ہوگئی کہ مرزائی