صوفیاء کے اس تصور پر عائد ہوتی ہے جو انہوں نے نبوت سے متعلق قائم کیا۔ انہوں نے یہ سمجھا کہ کمالات نبوت ایسی چیز ہے۔ جو سعی اور کوشش سے حاصل ہوسکتی ہے۔ زہد وریاضت اور اﷲ کی خوشنودی کے حصول میں جدوجہد انسان کو اس حد تک پہنچادیتی ہے کہ اس کا آئینہ دل اتنا مجلا اور شفاف ہو جائے کہ غیب کے انوار وتجلیات کی جھلک اس پر منعکس ہو۔ ان کا دل مہبط وحی قرار پائے اوراس کے کان طرح طرح کی آوازیں سنیں۔ یعنی مقام نبوت یا محدثیت اور بالفعل نبوت کا حصول یہ دو مختلف چیزیں نہیں۔ مقام نبوت سے مراد عمل وفکر کی وہ صلاحیتیں ہیں جو بشریت کی معراج ہیں۔ ان تک رسائی کے دروازے امت محمدیہ پر بلاشبہ کھلے ہیں۔ شوق عبودیت اور ذوق عبادت شرط ہے۔ جوبات ختم نبوت کی تصریحات کے بعد ہماری دسترس سے باہر ہے۔ وہ نبوت کا حصول ہے کہ اس کا تعلق یکسر اﷲتعالیٰ کے انتخاب سے ہے۔ یعنی یہ اس پر موقوف ہے کہ اس کی نگاہ کرم اس عہدہ جلیلہ کے لئے اپنے کسی بندے کو چن لے۔ جس میں نبوت کی صلاحیتیں پہلے سے موجود ہوں اور جو مقام نبوت پر پہلے سے فائز ہو۔ اب چونکہ نامزدگی کا یہ سلسلہ بند ہے۔ اس لئے کوئی شخص ان معنوں میں تو نبی ہرگز نہیں ہوسکتا کہ اس کا ماننا دوسروں کے لئے ضروری ہو اوراس کے الہامات دوسروں پر شرعاً حجت ہوں۔ البتہ مقام نبوت یا نبوت کی صلاحیتیں اب بھی حاصل ہوسکتی ہیں۔ نبوت کے اس تصور سے چونکہ نبوت مصطلحہ اور ولایت کے اس مقام میں بجز نامزدگی کے اور کوئی بنیادی فرق نہیں رہتا۔ اس لئے وہ حق بجانب ہیں کہ اس کو بھی ایک طرح کی نبوت قرار دیں کہ دونوں فطرت وحقیقت کے اعتبار سے ایک ہی چیز کے دو نام ہیں اور امتیاز جو ہے وہ صرف رتبہ واعتزاز کا ہے۔ نوعیت کا نہیں یا یوں کہئے کہ اصطلاحی ہے۔
نبوت ولایت میں فرق نوعیت کا ہے مدارج کا نہیں
ہمارے نزدیک یہ تصور نبوت کا درست نہیں۔ ولایت ونبوت میں جو فرق ہے وہ اس طرح کا نہیں ہے۔ جیسے ایک عالم اور حکیم میں ہوتا ہے یا فقیہ ومجتہد میں ہوتا ہے۔ بلکہ وہ نوعیت کا ہے۔ مدارج یا رتبہ کا نہیں۔ نبوت اپنے ماخذ کے اعتبار سے جس سے وہ براہ راست استفادہ کرتی ہے۔ اپنی صلاحیتوں کے نقطہ نظر سے اور اپنے طریق کار کے لحاظ سے ولایت سے یکسر مختلف شے ہے۔ نبوت کا ماخذ منشاء الٰہی ہے۔ ’’وما ینطق عن الہویٰ ان ھو الا وحی یوحیٰ‘‘ اور ولایت کاماخذ کتاب وسنت ہے اور وہ واردات واحوال جن کو الہامات ووحی سے تعبیر کرتے ہیں۔ ایسے نہیں ہیں کہ ان پر وثوق کیا جاسکے۔ ابھی دل کا سائنس اتنا ترقی پذیر نہیں ہوا کہ الہام ووحی کی پوری پوری تشریح ہوسکے۔ تاہم اتنا تو بہر آئینہ طے ہے کہ اس وحی میں وہ قطعیت نہیں جو وحی نبوت