ہے۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ بڑی سے بڑی ملازمتیں بھی کسی گروہ کے لئے کوئی تحفظ نہیں ہوتیں۔ حقیقی تحفظ یہ ہے کہ پاکستان کے دستور میں ان کے لئے مخصوص اقلیت کی حیثیت سے جگہ ہو۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تجویز ان کے حق میں اتنی ہی مفید ہے تو ہم اس کی کیوں تائید کررہے ہیں؟ جواب یہ کہ دو وجہ سے ایک تو یہ کہ جب یہ ہم سے الگ ایک گروہ ہیں۔ دینی اور ذہنی اعتبار سے ان کا راستہ ہم سے جدا ہے تو کیوں دستور کے لحاظ سے یہ ہم سے الگ نہ ہوں۔ دوسرے یہ کہ عالم اسلامی چونکہ ان کے تفصیلی عقائد سے آگاہ نہیں۔ اس لئے فرقے کی حیثیت سے انہیں موقع ملتا ہے کہ ان کو گمراہ کریں اور اپنے غلط پراپیگنڈے سے ان کے عقیدوں کو متأثر کریں۔ چنانچہ دنیائے اسلام میں یہ ہمیشہ اس روپ سے متعارف ہوتے ہیں کہ ہم ایک تبلیغی جماعت ہیں اور اسلام کی سربلندی اور استحکام کے لئے کوشاں ہیں۔ حالانکہ مقصود صرف یہ ہوتا ہے کہ مرزائیت کی اشاعت ہو۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ تلبیس وفریب کاری کے اس فتنہ کا انسداد ہو۔ عالم اسلامی کو اگر یہ معلوم ہوجائے کہ پاکستان میں ان کی آئینی حیثیت کیاہے؟ تو پھر وہ ان کے دام میں نہیں پھنسیںگے۔ ہم اس شے کے لئے تیار ہیں کہ انہیں ایک اقلیت سمجھیں اور ان سے اس طرح کا برتاؤ کریں جس طرح اقلیت سے کرنا چاہئے۔ لیکن ہم اس پر بھی آمادہ نہیں ہیں کہ انہیں اسلام کے نام سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا موقع دیں۔
آئندہ دستورمیںمرزائیوں کی جگہ
یہ مسئلہ بہت پیچیدہ ہے کہ مرزائیت کا مقام اسلامی فرقوں میں کیا ہو؟ مولانا ابوالکلام آزاد نے ایک صحبت میں ایک مرتبہ ارشاد فرمایا تھا کہ انہیں بہرآئینہ مؤولین ہی میں شمار کرنا چاہئے۔ اب جب کہ پاکستان نے ایک نئی سیاسی کروٹ لی ہے تو اس میں خواہ کوئی نظام حکومت چلے۔ اتنا تو ہوگا ہی کہ دستور میں ان کی حیثیت کو متعین کیاجائے اور اس حیثیت کے مطابق ان کے حقوق کی وضاحت ہو۔
ہمیں مولانا ابوالکلام آزاد کی رائے سے اتفاق نہیں ہے کہ تاویل کے ہر ہرمرتبہ کا ایک ہی حکم ہو۔ تاویل کی اصطلاح میں اتنی لچک نہ ہونا چاہئے کہ اسلامی مزاج ونصوص کی صریحاً مخالفت کے باوجود کوئی گروہ اسلام کے دائرے سے نہ نکل سکے۔ اگر تاویل کے مراتب مختلفہ کا لحاظ کئے بغیر اس کی ہر ہرصورت کو جائز گوارا کیا گیا تو پھر انکار وارتداد کی ضرورت ہی باقی نہ رہے گی۔ فرض کیجئے ایک شخص غیر اﷲ کی پوجا کرتا ہے اور اس شرک خالص کے لئے اس سے استدلال کرتا ہے کہ خود اﷲ