مرزاقادیانی کے دعاوی کے خلاف خاتم النبیین کے مسئلہ پر بحث کئے بغیر پانچ دلائل پیش کر چکا ہوں اور متعدد مزید دلائل پیش کرنے والا ہوں۔ یہ دلائل انشاء اﷲ ناقابل تردید ہیں۔ لہٰذا میرے لئے یہ ضروری نہیں کہ میں سید المرسلین کے خاتم النبیین ہونے کے مسئلہ پر زیادہ تفصیل سے بحث کروں۔
ساتویں دلیل
ہر پیغمبر کے بعض معتقدین مرتد ہوئے۔ لیکن شاید تاریخ عالم میں مرزاقادیانی کے سوا اور کوئی ایسی مثال موجود نہیں۔ جس میں کسی نبی کے دعویٰ نبوت کے متعلق اختلاف ہوا ہو۔ مرزاقادیانی وہ واحد مدعی نبوت ہیں جن کے ادّعائے نبوت کے متعلق خود ان کے معتقدین میں اختلاف ہے۔ چنانچہ مرزاقادیانی کے مریدوں کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ کا نام احمدی جماعت لاہور ہے اور دوسرا گر وہ قادیانی کہلارہا ہے۔ لاہوری جماعت کے عقائد کی فہرست اس جماعت کے امیر مولانا محمد علی کی تصنیف ’’تحریک احمدیت‘‘ کے آخری صفحہ پر موجود ہے۔ اس میں عقیدہ نمبر۲ کے الفاظ یہ ہیں۔
’’ہم آنحضرتﷺ کو خاتم النبیین مانتے ہیں۔ بالفاظ بانی سلسلہ (یعنی مرزاقادیانی قادیان) جو لکھتے ہیں کہ: ’’اس بات پر محکم ایمان رکھتا ہوں کہ ہمارے نبیﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ نیا ہو یا پرانا جو شخص ختم نبوت کا منکر ہو اسے بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں۔ میرا یقین ہے کہ وحی رسالت حضرت آدم صفی اﷲ سے شروع ہوئی اور جناب رسول اﷲﷺ پر ختم ہوگئی۔ ہم نبوت کے مدعی پر لعنت بھیجتے ہیں۔‘‘
اسی جماعت کے عقیدہ نمبر۷ میں لکھا ہے کہ مرزاقادیانی نے فرمایا کہ: ’’میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں۔‘‘
برعکس ازیں جماعت قادیان کا عقیدہ یہ ہے کہ مرزاقادیانی کے دعویٰ نبوت سے انکار کرنے والا کافر ہے۔ میں ان دو جماعتوں کے اختلاف کی وجہ سے یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہوں کہ مرزاقادیانی متضاد باتیں فرماگئے۔ لہٰذا ان کی تحریک پر ایمان لانا خارج از بحث ہے۔ ان کے تضاد پر انشاء اﷲ تعالیٰ جداگانہ بحث بھی ہوگی۔
قسط ششم
تحریک قادیان پر مجھے سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس کو ایک نبی کی تحریک مانا جاتا ہے اور جیسے کہ میں آگے چل کر ثابت کروںگا۔ مرزاقادیانی نے ادعائے نبوت کا ایک ایسا دروازہ کھول دیا ہے جو کبھی بند ہوتا نظر ہی نہیں آتا۔ پس مرزاقادیانی کی تحریک کے خلاف میری