اس کی بنیاد اور اساس ہے۔ مناظر کی نظر سے اوجھل رہتا ہے۔ اس کی نظر میں ایک طرح کی ٹیڑھ اور کجی پیدا ہوجاتی ہے۔ جس کے سبب سے جزئیات کی ٹٹول اور جستجو میں لگا رہتا ہے اور اصول اس کی نظر سے مخفی رہتے ہیں۔ اس کی ساری پرچول شاخوں اور پتیوں تک ہی رہتی ہے اور اس تحقیق وتفحص کی مناظرانہ موشگافیوں میں اسے موقع ہی نہیں ملتا کہ اس کے اس جمال سے لطف اندوز ہوسکے۔ جس کا تعلق پورے درخت کے پھیلاؤ سے ہے۔ گویا یہ پیڑ گننے کا قائل ہے۔ آم کھانا اس کے مقاصد میں داخل نہیں۔
اس کا نتیجہ
اس ذہنیت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ نظر کی جزئیت کی وجہ سے اسلام پر جب غور کرے گا تو جزئی حیثیت سے اگر وہ معتزلی ہے تو دیکھے گا کہ کن کن آیات سے اعتزال کی تائید ہوتی ہے۔ ارجاء کا قائل ہے تو سارا زور اس پر لگائے گا کہ ارجاء کی آیات تلاش کی جائیں۔ اس طرح جبری یا قدری ہے تو اپنے ڈھب کی آیتیں دکھلائے گا۔ اس کو اس سے کچھ مطلب نہیں ہوگا کہ اسلام بحیثیت مجموعی ہم سے کیا چاہتا ہے؟ جن لوگوں نے قرآن حکیم کی تفاسیر کو دیکھا ہے اور بالاستیعاب پڑھا ہے۔ انہوں نے دوران مطالعہ میں یہ کوفت محسوس کی ہوگی کہ اس طرح کی بحثوں نے کیونکر قرآن کی حقیقی معنویت اور خوبیوں کو چھپارکھا ہے۔ بہت بڑا نقصان اسلام کو یہ پہنچا ہے کہ اس کے حکم واسرار پر چند لاطائل بحثوں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ اتنی جلیل القدر کتاب صرف مناظرانہ گتھیوں کو سلجھانے کے لئے نازل ہوئی ہے۔ انسانی زندگی کو سنوارنا اس کا مقصد نہیں۔
اس کا اثر اعمال پر کیا ہوتا ہے؟
عملی اعتبار سے اس کا اثر طبائع پر یہ ہوتا ہے کہ مذہب کے تقاضے صرف اس قدر رہ جاتے ہیں کہ مخصوص مسائل پر آپ کے ذہن میں کتنا مواد جمع ہے؟ اور کن کن دلائل سے آپ اپنے مسلک کو حق بجانب ٹھہراسکتے ہیں؟ مذہب کی رو سے استفادہ پوری عملی زندگی میں اس سے رہنمائی کا ولولہ اور شوق یا اخلاق وعادات میں ایک خاص طرح کا امتیاز قائم رکھنے کی تڑپ دائرہ عمل سے خارج قرار پاتی ہے۔
یعنی ایک مناظر اگر وہ مرزائی ہے تو اس کی تمام ترمذہبی زندگی کا مدار اس پر ہوگا کہ وہ حیات مسیح کے مسئلہ پر بڑے سے بڑے عالم سے ٹکرا سکے۔ ختم نبوت کے مضبوط حصار کو توڑ سکے۔