تعویق میں رکھنا پسند نہ فرماکر باتباع فیصلہ مذکور اسے طے فرمادیا۔ دربار معلیٰ نے چونکہ اس فیصلہ کو قابل پابندی قرار نہیں دیا جس فیصلہ کی بناء پر کہ وہ فیصلہ صادر ہوا اس لئے فیصلہ زیر بحث بھی قابل پابندی نہیں رہتا۔
فریقین میں سے مختار مدعیہ حاضر ہے۔ اس کے حکم سنایا گیا مدعا علیہ کارروائی مقدمہ ہذا ختم ہونے کے بعد جب کہ مقدمہ زیر غور تھا فوت ہوگیا ہے۔ اس کے خلاف یہ حکم زیر آرڈر ۲۲رول، ۶ضابطہ دیوانی تصور ہوگا۔ پرچہ ڈگری مرتب کی جاوے اور مسل داخل دفتر ہو۔
مورخہ ۷؍فروری ۱۹۳۵ئ، مطابق ۳؍ذیقعدہ ۱۳۵۳ھ
بمقام بہاولپور
دستخط: محمد اکبر ڈسٹرکٹ جج، ضلع بہاولنگر، ریاست بہاولپور
فیصلہ عدالت راولپنڈی، ۳؍جون ۱۹۵۵ء
نقل فیصلہ از عدالت شیخ محمداکبر صاحب، پی سی ایس ایڈیشنل سیشن جج
راولپنڈی مورخہ ۳؍جون ۱۹۵۵ئ، در اپیل ہائے دیوانی نمبر۳۳،۳۴
۱۹۵۵ء از مسماۃامتہ الکریم بنام لیفٹیننٹ نذیر الدین۔
فیصلہ کی آخری پیراگراف
’’چنانچہ مسلمان قادیانیوں کو مندرجہ ذیل وجوہات کی بناء پر کافر اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں:
۱…
آنحضرتﷺ کی ختم نبوت سے انکار، الفاظ قرآنی کی غلط تاویلات اور اس دین کو لعنتی اور شیطانی قرار دینا جس کے پیروکار حضورﷺ کے ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیں۔
۲…
مرزاغلام احمد کا تشریعی نبوت کا قطعی دعویٰ۔
۳…
یہ دعویٰ کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام ان (مرزاغلام احمد) پر وحی لاتے ہیں اور وہ وحی قرآن کے برابر ہے۔
۴…
حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت حسینؓ کی مختلف طریقوں سے توہین۔
۵…
نبی اکرمﷺ اور آپؐ کے دین کا اہانت آمیز طور پر ذکر۔۶…
قادیانیوں کے سوا تمام دوسرے مسلمانوں کو کافر قرار دینا۔
اوپر کی ساری بحث ہے۔ میں نے مندرجہ ذیل نتائج اخذ کئے ہیں۔