انتہاء کو پہنچ چکیں۔ یعنی وہ تمام فتنے جو ابھر سکتے تھے ابھر چکے اور تمام برائیاں رائج ہوچکیں۔ اس پر بھی اسلام کی جامعیت واکملیت کا یہ حال ہے کہ کہیں اس نے ہمارا ساتھ نہیں چھوڑا اور کسی مقام پر بھی اس کی شان ختمیت میں فرق نہیں آیا۔
دنیا کا پہلا آفاقی مذہب
اسلام کے مرتبہ ختمیت واکملیت کا اندازہ خصوصیت سے دوچیزوں سے ہوتا ہے۔ ایک تاریخ کے اس موڑ سے جس میں یہ جلوہ طراز عالم وعالمیاں ہوا اور دوسرے مسائل کی اس فیصلہ کن نوعیت اور ڈھنگ سے جو صرف اسی کا حصہ ہے۔ اس کے پیغام کی ایک جانی بوجھی خصوصیت آفاقیت ہے۔ یہ دنیا کا پہلا اور آخری مذہب ہے۔ جس نے گروہ اور شعب کے حدود سے آگے بڑھ کر نفس انسانیت کو اپنا مخاطب ٹھہرایا۔ جس نے تمام جغرافیائی حدبندیوں کا انکار کیا۔ نسلی وقبائلی حصاروں کو توڑا اور رنگ وبو کے اختلافات سے قطع نظر کر کے پورے انسانی معاشرہ کی رہنمائی کا بیڑا اٹھایا۔ یعنی اسلام دنیا کا پہلا عملی مذہب ہے۔ جس میں مقام وزبان کی جکڑ بندیوں کو ختم کیاگیا اور جو ایسی دینی قدروں پر اپنے عقیدہ کی بنیاد رکھتا ہے جو غیر مقامی اور ابدی ہیں۔
اس آفاقیت کے لئے عیسائیت کی بدولت راہیں ہموار ہوچکی تھیں۔ پولوس کی تبلیغی کوششوں سے رومیوں میں ایک بڑی تعداد غیر مختونوں یا انجیلوں کی اصطلاح میں غیر قوموں کی تیار ہوگئی تھیں۔ جن کے دلوں میں عیسائیت کے لئے خاصی تڑپ تھی اور قسطنطین اعظم کے عیسائی ہوجانے سے تو گویا عیسائیت کی حیثیت سرکاری مذہب ہی کی ہوگئی تھی۔ اس لئے یورپ میں اسے پاؤں پسارنے کا خوب موقعہ ملا۔
بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ اس کی برکت سے ان مغربی قوموں کی فطری حوصلہ مندی بروئے کار آئی اور یہ یوں فاتحانہ طور پر یورپ وایشیاء کی مختلف قوموں کو جو صدیوں سے جداجدا رہتی تھیں۔ ملادینے میں کامیاب ہوئی اور اس طرح یہ تو ہوا کہ انسانیت چھوٹے چھوٹے قومیت کے دائروں سے نکل کر ایک بڑے دائرے میں داخل ہوئی اور آفاقیت وعالمگیریت کی طرف ابتدائی قدم اٹھا۔ مگر اس کا کیا کیا جائے کہ عیسائیت کے پاس ایسی کوئی عالمی دعوت نہیں تھی جس پر پوری انسانیت کی شیرازہ بندی ہوسکتی۔
عمل کا کوئی چوکھٹا نہیں تھا۔ جو مختلف قوموں اور ملکوں کی رنگارنگی کے باوجود بکار آمد ہوتا اور رنگ ونسل کے اختلاف کے علی الرغم انسانیت کے لئے ایسی اونچی اخلاقی ومعاشرتی سطحیں مہیا کرتا۔ جہاں سب تفرقے مٹ جاتے اور اخوت وبھائی چارہ کی بنیاد پڑتی۔ لہٰذا اس کی فتوحات عملاً