’’اگر حاکم ظالم ہو تو بھی اسے برا بھلا نہ کہتے پھرو بلکہ اپنی حالت میں اصلاح کرو۔‘‘
(ملفوظات ج۲ ص۲۹۸، از مرزاغلام احمد)
اس نظریے کے ساتھ قادیانیوں نے ہر اقتدار کا ساتھ دیا۔ ان کے ظلم وستم میں باقاعدہ ان سے تعاون کیا اور حکومت کے مخالفین کے بارے میں حکومت کے کان بھرتے رہے۔ ان کے خلاف اسے اکساتے رہے اور ان کی تباہی وبربادی کے منصوبے تیار کر کے حکومت کو دیتے رہے۔ پاکستان کے افراد جانتے ہیں کہ ایوب خان دور میں محترمہ فاطمہ جناح اور جماعت اسلامی کے خلاف پروپیگنڈہ مرزائیوں نے منظم طریقے پر شروع کیا اور ربوہ کے ضیاء الاسلام پریس سے پوسٹر چھپ کر مرزائیوں کے ہاتھوں پورے ملک میں چسپاں ہوتے رہے اور ان کی وہ حالت بن گئی جس کی طرف خود خلیفہ قادیان نے اشارہ کیا تھا۔
’’ہماری جماعت وہ جماعت ہے جسے شروع سے ہی لوگ کہتے چلے آئے کہ یہ خوشامدی اور گورنمنٹ کی پٹھو ہے۔ بعض لوگ ہم پر الزام لگاتے ہیں کہ ہم گورنمنٹ کے جاسوس ہیں۔ پنجابی محاورہ کے مطابق ہمیں جھولی چک اور نئے ’’زمینداری‘‘ محاورہ کے مطابق ہمیں ٹوڈی کہا جاتا ہے۔‘‘ (اخبار الفضل ج۲۲ ش۵۸ص۲، ۱۱؍نومبر۱۹۳۴ئ)
ملازمتوں پر قبضہ
پورے ملک پر قبضے کے منصوبے کے دوسرے حصہ میں قادیان نے فوج اور سول سروسز پر قبضہ کا پروگرام تیار کیا۔ اس سلسلہ میں خلیفہ ربوہ کی صرف ایک تحریر کافی ہے۔ ’’بھیڑ چال کے طور پر نوجوان ایک ہی محکمہ میں چلے جاتے ہیں۔حالانکہ متعدد محکمے ہیں۔ جن کے ذریعے سے جماعت ۱؎ اپنے حقوق حاصل کر سکتی ہے اور اپنے آپ کو شر سے بچا سکتی ہے۔ جب تک ان سارے محکموں میں ہمارے اپنے آدمی موجود نہ ہوں۔ ان سے جماعت پوری طرح کام نہیں لے سکتی۔ مثلاً موٹے موٹے محکموں میں سے فوج ہے، پولیس ہے، ایڈمنسٹریشن ہے، ریلوے ہے، فنانس ہے، اکاؤنٹس ہے، کسٹم ہے، انجینئرنگ ہے۔ ہمیں اس بارے میں خاص پلان بنانا چاہئے اور پھر اس کے مطابق کام کرنا چاہئے۔‘‘ (الفضل ج۶ ص۴۰، ش۱۰ ص۴، مورخہ۱۱؍جنوری ۱۹۵۲ئ)
۱؎ اس لفظ جماعت پر غور کیجئے اور اس کے حقوق حاصل کرنے کی سکیم پر توجہ کیجئے۔ پورے ملک میں ایک یہی جماعت ہے جو برملا اپنے علیحدہ حقوق کی بات کرتی ہے۔ لیکن اپنی الگ حیثیت سے گنتی کرانے پر اور اس کے تقاضے وارادے پورے کرنے پر تیار نہیں ہوئی۔ کاش ہمارے حکمران اس ’’منطق‘‘ کو سمجھیں۔